Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Tausif Ahmad Khan/
  3. Sindh Mein Sehat Ke Nizam Ki Zaboon Hali

Sindh Mein Sehat Ke Nizam Ki Zaboon Hali

حیدرآباد سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے جس کی آبادی 20ملین کے قریب ہے۔ حیدرآباد کے محلہ اکبری مسجد کے قریب 22 جولائی کو قیامت صغریٰ برپا ہوئی۔ اس علاقہ میں واپڈا کا ایک ٹرانسفارمر پھٹ گیا۔ ٹرانسفارمر کے پھٹنے سے کھولتا ہوا تیل قریب موجود لوگوں پر گرا۔

اس حادثہ میں 25 افراد کے جسم جل گئے، ان میں سے ابھی تک کی اطلاع کے مطابق 8 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، یہ عیدالاضحی کا دوسرا دن تھا۔ حیدرآباد کی سڑکوں اور گلیوں میں خاصی رونق تھی کہ یہ سانحہ ہوا۔ شعبہ بجلی کے ماہرین کہتے ہیں کہ ٹرانسفارمر کا پھٹنا غیر معمولی بات ہے۔

واپڈا کے عملے نے ٹرانسفارمر کی دیکھ بھال نہ کی یا ٹرانسفارمر کے پرزے تبدیل ہونے ضروری تھے، بہرحال واپڈا کے عملے کی عدم توجہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر عیدالاضحی پر قربانی کا فریضہ انجام دینے والے یا جانوروں کی قربانی کا منظر دیکھنے والے معصوم شہری اس حادثہ کا شکار ہوئے۔

ٹرانسفارمر پھٹنے کا سانحہ تو تھا ہی المناک مگر سندھ کے صحت کے نظام کی زبوں حالی نے ان زخمیوں کے مصائب مزید بڑھادیے۔ حیدرآباد شہر میں ایک پرانا سول اسپتال ہے۔ زخمیوں کو پہلے اس اسپتال میں لیا جایا گیا مگر اس سرکاری اسپتال میں جلنے کے مریضوں کے علاج کا Burns Ward موجود نہیں ہے، یوں سول اسپتال کے ایمرجنسی کے شعبہ میں ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں نے آنے والے مریضوں کو فرسٹ ایڈ دی اور مریضوں اور ان کے لواحقین کو ہدایات دیں کہ لیاقت یونیورسٹی اسپتال لے جائیں۔

لیاقت یونیورسٹی اسپتال کا شمار حیدرآباد سے لے کر پنجاب کی سرحد تک کے علاقوں کے بڑے اسپتالوں میں ہوتا ہے۔ حکومت نے اس اسپتال کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اسے سندھ میں سب سے پہلے لیاقت یونیورسٹی اسپتال کا درجہ دیا تھا مگر اس سانحہ نے لیاقت یونیورسٹی اسپتال کی پسماندگی کو آشکار کردیا۔ لیاقت یونیورسٹی اسپتال کا برنس وارڈ پہلے دیوان مشتاق کارڈک وارڈ کے متوازی تھا۔

وقت گزرنے کے ساتھ اس وارڈ کی عمارت خستہ ہوتی چلی گئی اور حکام نے اس وارڈ کی عمارت کو خطرناک قرار دیا، یہ وارڈ کئی عمارتوں میں منتقل ہوا۔ حیدرآباد میں تعینات انگریزی اخبار کے نامہ نگار نے لکھا ہے کہ لیاقت یونیورسٹی کی انتظامیہ نے کبھی اس وارڈ کی ترقی اور جدید سہولتوں کی فراہمی کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا، برنس وارڈ کو ایڈہاک بنیادوں پر چلایا گیا۔ اسپتال کی انتظامیہ نے برنس وارڈ میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کی مستقل تعیناتی کے بجائے دوسرے وارڈ سے مستعار لے کر ڈاکٹروں کو عارضی طور پر تعینات کیا۔

برنس وارڈ کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل عملہ کو مخصوص قسم کی تربیت دی جاتی ہے مگر انتظامیہ نے اس طرح کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ جب بھی کوئی ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہو تو بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس وارڈ کا اپنا مکمل جدید آپریشن تھیٹر نہیں ہے اور مریضوں کے خون اور جلد کے ٹکڑوں کے ٹیسٹ کے لیے لیباریٹری موجود نہیں ہے۔ اس وارڈ میں ایک چھوٹا آپریشن تھیٹر موجود ہے مگر مریضوں کی تعداد بڑھنے پر یہ آپریشن تھیٹر ناکافی ثابت ہوتا ہے۔

اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے مطابق برنس وارڈ کی نئی عمارت کی تعمیر مکمل ہوچکی ہے مگر اس عمارت میں بیڈ، آلات اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کا معاملہ کہیں فائلوں میں چھپا ہوا ہے۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ برنس وارڈ کی عمارت کی تعمیر پر 93.361بلین روپے کی لاگت آئی اور یہ وارڈ 04آئی سی یو کے 16 بیڈز پر مشتمل ہوگا۔

ایک سینئر پروفیسر کا کہنا ہے کہ جسم جلنے کے مریضوں کی رپورٹ جتنی جلدی دستیاب ہوتی ہے اتنی جلدی ڈاکٹروں کو مریضوں کے جسم کے جلنے کی گہرائی اور جلنے کی نوعیت کا اندازہ ہوتا ہے مگر لیباریٹری کی سہولت نہ ہونے سے مریضوں کی اموات کی شرح بڑھی ہے۔ اکبری مسجد لطیف آباد 8نمبرکے اس سانحہ کی رپورٹنگ کرنے والے رپورٹروں نے لکھا ہے کہ پہلے مریضوں کو سول اسپتال لے جایا گیا جہاں ابتدائی طبی امداد دی جاسکتی تھی جو نہ ہونے کے برابر تھی۔ پھر بہت سے مریض براہِ راست لیاقت یونیورسٹی اسپتال لے جائے گئے۔

لیاقت یونیورسٹی اسپتال کے برنس وارڈ میں اتنی سکت نہیں تھی کہ مریضوں کے زخموں کے علاج کے لیے فوری کارروائی ہوسکے۔ یہ بات اخبارات میں شائع ہوئی کہ اس وارڈ میں 20 فیصد تک جلنے والے مریضوں کے علاج کی سہولت نہیں ہے جب کہ 20 فیصد سے زائد جلنے والے مریضوں کے لیے خصوصی نگہداشت یونٹ I.C.U کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس وارڈ کے ڈاکٹروں نے بیشتر مریضوں کو کراچی جانے کا مشورہ دیا۔ مریضوں کے لواحقین پر قیامت گزررہی تھی مگر مریضوں کی کراچی منتقلی کے لیے ایمبولینس دستیاب نہیں تھی۔ پھر کراچی کے سول اسپتال میں جلنے کے مریضوں کا ایک جدید انسٹی ٹیوٹ قائم ہے جس کو نجی شعبہ کی مدد سے تعمیر کیا گیا ہے۔

اس وارڈ میں آئی سی یو سمیت تمام جدید سہولتیں دستیاب ہیں۔ ڈاکٹر اس مرض کے علاج کے لیے تربیت یافتہ ہیں اور پیرامیڈکل اسٹاف کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے، مگر 22 جولائی کے بدقسمت دن اس انسٹی ٹیوٹ کے تمام بیڈز پر مریض موجود تھے، یوں بہت سے مریضوں کو نجی اسپتالوں میں بھیجا گیا۔ جو مریض اور ان کے لواحقین نجی اسپتالوں کے علاج کا خرچہ برداشت کرسکتے تھے وہ تو ان اسپتالوں میں داخل ہوئے اور باقی سرکاری اسپتالوں میں علاج کے منتظر رہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ جلنے والے مریضوں کو ایک گھنٹہ کے دوران باقاعدہ طبی امداد مل جائے تو اس کی جان بچ جاتی ہے، یوں محض علاج کی سہولت نہ ہونے کی بناء پر بہت سے مریضوں کی جان نہیں بچائی جاسکی۔

پاکستان کے آئین میں 18ویں ترمیم کے تحت صحت کا شعبہ صوبوں کو منتقل ہوا۔ قومی مالیاتی ایوارڈ(N.F.C) کا نیا فارمولہ طے ہوا، یوں صوبوں کی آمدنی میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔ سندھ صوبہ میں ڈاکٹر ادیب الحسن رضوی جیسے عظیم ڈاکٹر موجود ہیں جو 70ء کی دہائی سے گردے کے علاج کی جدید سہولتوں کے لیے فعال ہیں، یوں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولواجی (S.I.U.T) قائم ہوا۔ مخیر حضرات نے اس ادارہ کو بنانے کے لیے اربوں روپے کے عطیات دیے۔ سندھ میں قائم ہونے والی تمام حکومتوں نے بھی ایس آئی یو ٹی کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے گرانٹ دی۔

اسی طرح ڈاکٹر بھٹی گمبٹ میں گردوں کے امراض کا جدید اسپتال قائم کیا۔ اس اسپتال کی تعمیر میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں اور فیاضی کرنے والے اداروں اور افراد نے انفرادی طور پر اس ادارہ کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت نے ڈاکٹر قمر کو دل کے امراض کے قومی ادارہ کا سربراہ مقرر کیا۔

انھوں نے این آئی سی وی ڈی کی ترقی، مختلف شہروں میں اس کے یونٹ بنائے اور شاہراہوں پر ایمرجنسی یونٹ قائم کیے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری ملک بھر میں ان اسپتالوں کی مثال دیتے ہیں جوکہ ایک حقیقت ہے۔

ان اسپتالوں میں اسٹیٹ آف دی آرٹ سہولتیں موجود ہیں اور ان اسپتالوں میں کوئی کیش کاؤنٹر موجود نہیں ہے مگر معاملہ صرف تین اسپتالوں کے گن گانے سے حل نہیں ہوسکتا۔ سندھ کی حکومت کے کارنامے تو بہت ہیں مگر بدقسمتی سے ہر کارنامہ کے ساتھ کرپشن کی داستانیں بھی سنائی دی جاتی ہیں۔

سندھ حکومت کے ناقدین کہتے ہیں کہ سندھ حکومت سرکاری اسپتالوں کی ترقی کے لیے رقم مختص کرتی ہے مگر شاید یہ رقم نامعلوم پروجیکٹس پر خرچ ہوتی ہے۔ سندھ کے دوسرے بڑے شہروں حیدرآباد، میرپور خاص، بے نظیر آباد، خیرپور اور سکھر ڈویژن میں اب تک برنس وارڈ کا قائم نہ ہونا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔

سکھر کے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ سکھر کے سول اسپتال کے سرجیکل وارڈ پر برنس وارڈ کا بورڈ لگا ہوا ہے مگر اس وارڈ میں کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کو اس اہم معاملہ پر توجہ دینی چاہیے اور سندھ کے تمام اسپتالوں میں علاج کی جدید سہولتوں کی فراہمی پر توجہ مرکز رکھنی چاہیے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran