Friday, 11 April 2025
  1. Home/
  2. Umar Khan Jozvi/
  3. Afghan Mahireen, Khuda Hafiz

Afghan Mahireen, Khuda Hafiz

دنیاوالے مانیں یانہ لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغان مہاجرین کے معاملے اورمسئلے پراس ملک اوریہاں کے غیورعوام نے وہ قرض بھی اتارے ہیں جواس ملک اوریہاں کے عوام پرفرض بھی نہیں تھے۔ ہزاروں نہیں لاکھوں مہاجرین کوبیک وقت پناہ اورتحفظ دینایہ کوئی عام، چھوٹی اورمعمولی بات نہیں۔ افغان مہاجرین، افغانستان کے حکمران وعوام اوردنیاوالے اعتراف کریں یانہ لیکن حق اورسچ یہی ہے کہ افغان مہاجرین کے معاملے میں پاکستان اورپاکستانی عوام نے وہ کیاجوآج تک امریکہ اوربرطانیہ سمیت کوئی بھی امیر، سرمایہ داراورطاقتورملک بھی نہ کرسکا۔

امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک پانچ دس سال کے لئے ہزاروں مہاجرین کابوجھ بھی غالباََ برداشت نہیں کرسکتے لیکن پاکستان پانچ دس نہیں بلکہ پچھلے چالیس پینتالیس سال سے بیس تیس لاکھ افغان مہاجرین کودل وسینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ سویت یونین کے افغانستان پروارکے بعدافغان مہاجرین کے لئے جس طرح اس ملک کے دروازے کھولے گئے اوریہاں کے عوام نے اپنے مہاجربھائیوں کوجس طرح گلے سے لگایااس نے تاریخ کی کئی یادیں تازہ کیں۔

چالیس پینتالیس سال تک افغان مہاجراس ملک میں آرام، سکون، عزت اورتحفظ سے رہے۔ یہاں کے حکمرانوں اورعوام سے مہاجرین کے ساتھ بھلائی کے لئے جوہوسکتاتھااللہ گواہ ہے کہ وہ انہوں نے ان کے ساتھ کیا۔ مہاجرین مہاجرکیمپوں میں رہے یاعام آبادیوں میں اس ملک کے بچے بچے نے انہیں ایساپیاردیاکہ انہیں کبھی یہ ملک اوریہاں کے عوام بیگانے محسوس نہیں ہوئے۔ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ اس مٹی نے افغان عوام کوجومحبت دی ایسی محبت انہیں ان کی اپنی افغان مٹی نے بھی نہیں دی ہوگی۔ یہ اس ملک میں خیبرسے مکران اورواہگہ سے کشمیرتک جہاں بھی رہے آزادی اورخوشحالی کے ساتھ رہے۔

انیس سو اناسی میں افغان وارکے بعدافغانستان سے ہجرت کے یہ چالیس پینتالیس سال ان افغان مہاجرین نے یہاں مہاجرنہیں بلکہ عام شہریوں کی طرح گزارے ہیں۔ یہاں کی مٹی نے جتنی عزت اپنوں کودی اس سے بڑھ کراس مٹی پرعزت ان مہاجرین کوملی وہ الگ بات ہے کہ افغانی لبادے میں چھپے کچھ شیطان اس ملک اوریہاں کے باغیرت عوام کے خلاف دشمن کی سازشوں اورچالوں میں ہمیشہ پیش پیش رہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کے باشعورعوام نے اس معاملے میں بھی اقلیت کی شیطانی کواکثریت کے گناہ کادرجہ کبھی نہیں دیا۔

مٹھی بھرعناصرکی وطن عزیزکے خلاف ہرزہ سرائی، قومی پرچم کی بے حرمتی یااس ملک کے اندرچوری، ڈاکہ زنی، گالم گلوچ اوربدامنی کی کارروائیوں اورکوششوں کویہاں کے عوام نے قوم نہیں گروہ کاشاخسانہ سمجھ کرافغان قوم سے نفرت کوپروان نہیں چڑھایا۔ کسی افغانی یامہاجرکی جانب سے اس ملک، یہاں کے عوام یاکسی شہری کے خلاف کسی نامناسب اورظالمانہ اقدام اورکردارکویہ سمجھ کرنظراندازکیاگیاکہ اچھے برے لوگ ہرملک، قوم اورمعاشرے میں ہوتے ہیں۔ جس طرح ہمارے ہاں سب فرشتے نہیں اسی طرح افغان اورمہاجروں میں بھی اچھے برے لوگ موجودہیں۔

مہاجروں میں ایسے ایسے خودار، باعزت اوروفادارلوگ بھی ہیں کہ جن کے جانے پراب یہاں کے لوگ برسوں تک روئیں گے اورآنسوبہائیں گے۔ ہمیں یادہے بارہ تیرہ سال پہلے ہمارے پڑوس میں آبادایک مہاجرگھرانہ جب واپس افغانستان روانہ ہونے لگاتواس گھرانے کی واپسی پراڑوس پڑوس کے لوگ باالخصوص چھوٹے چھوٹے بچے اس طرح دھاڑیں مارکررورہے تھے کہ جیسے کوئی اپنے جداہورہے ہوں۔ اس گھرانے کے بڑے کیا؟

چھوٹے چھوٹے بچے بھی اتنے شریف، باادب اورسلجھے ہوئے تھے کہ سالوں قیام کے دوران انہوں نے کبھی پڑوس اورمحلے میں کسی کوشکایت کاکوئی موقع نہیں دیا۔ اب بھی ان مہاجروں میں بہت سے خاندان، گھرانے اورلوگ ایسے ہوں گے جن کے واپس افغانستان جانے پریہاں کے بہت سے لوگ دکھی اورافسردہ ہوں گے۔ انسان سے انسان کی محبت یہی اصل انسانیت ہے۔ جولوگ دوسروں کے دکھ، درد، غمی اورخوشی کااحساس نہ کریں وہ انسان کہلانے کے بھی حقدارنہیں ہوتے۔

ہمیں پہلے بھی افغان مہاجربھائیوں کے دکھ، درداورتکلیف کادل سے احساس تھااورآج بھی ہے۔ ہجرت کادردسخت ہوتاہے اللہ کسی دشمن کوبھی اپنے وطن اورگھر سے دورنہ کرے۔ افغان مہاجرین پرکئی امتحانات آئے۔ سنہ اسی کے بعدیہ کئی طرح کے آزمائشوں سے گزرے، سویت یونین اورنیٹوکے وارسہنے کے ساتھ انہیں وطن سے ہجرت، بھوک، غربت اورافلاس کے ایک نہیں کئی کڑوے گھونٹ بھی ایک ساتھ پینے پڑے۔ ماناکہ ہجرت کے بعدمہاجرین اندھیروں سے نکل کرپھرسے روشنیوں میں آئے اوریہاں ان کانظام اورزندگی کاپہیہ بہترسے بھی بہترچلنے لگالیکن اس ملک کی بھی آخرکچھ نہیں بہت مجبوریاں ہیں۔

اس ملک کے ناتواں کندھوں نے چالیس سال تک مہاجرین کاجوبوجھ اٹھایاوہ بھی ایک غنیمت اورمعاشی طورپراس کمزورملک کی ہمت ہے۔ لاکھوں مہاجرین کوسنبھالنایہ کوئی آسان کام نہیں۔ اتنے مہاجرین اگرامریکہ اوربرطانیہ سمیت کسی بڑے ترقی یافتہ ملک بھی جاتے تووہاں کے حکمرانوں اورذمہ داروں نے بھی دوسرے دن ہاتھ کھڑے کرنے تھے یہ توافغان مہاجرین کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں پناہ کے لئے ایساملک ملاکہ جوچالیس پینتالیس سال تک ان کے لئے مکمل سائبان بلکہ دوسراگھربنارہا۔ پاکستان کی اس شانداراورتاریخی میزبانی اورمہمان نوازی پرافغان عوام پاکستان کاجتنابھی شکریہ اداکریں وہ کم ہے۔

افغان عوام باقی سارے قرض شائدکہ اتار دے لیکن یہاں کی مٹی کاپیار، محبت اورخلوص والایہ قرض وہ کبھی اتارنہیں سکیں گے۔ بہرحال افغان مہاجرین نے ایک نہ ایک دن واپس جاناہی ہے۔ آج گئے یاکل، آخرجاناہی ہوگا۔ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعداب وہاں حالات کافی بہترہوگئے ہیں۔ امیدہے کہ مہاجرین کوواپس جاکروہاں آبادکاری میں زیادہ مشکلات اورپریشانی کاسامنانہیں کرناپڑے گا۔ اس لئے مہاجرین کوحکومتی فیصلے اوراعلان پرآمین کہتے ہوئے اپنی رضاکارانہ واپسی کویقینی بناناچاہئیے۔ جوکام کل زبردستی اورڈنڈے کے زورپرکرناہے وہ آج اگرپیار، محبت، خوشی اوررضامندی سے کیاجائے تواس میں عزت کے ساتھ دونوں برادرممالک اوران کے اقوام کی بھلائی بھی ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran