بدقسمت نہیں بلکہ ہم وہ ظالم اور خود غرض لوگ ہیں جو نہ خود کوئی اچھا کام کرتے ہیں اورنہ ہی کسی اور کو کرنے دیتے ہیں۔ انسانیت کوتازہ بوٹی سمجھ کرکسی خوانخواردرندے کی طرح چیرپھاڑنے اورنوچنے والی مخلوق کوکیاپتہ کہ خدمت، رحمدلی اور انسانیت کسے کہتے ہیں؟ انسانیت کی بقاء، فلاح، ملک کی ترقی اورعوامی خوشحالی کاجوکام ہم نہ کریں یانہ کرناچاہیں پھرہماری خواہش ہوتی ہے کہ وہ کام کوئی اور بھی نہ کریں۔ سچ تویہ ہے کہ ہمیں کبھی ذات اور مفاد سے نکلنے کی ہمت اور توفیق ہی نہیں ہوئی۔ اب جولوگ اللہ کے فضل اورکرم سے اپنی ذات اور مفاد سے نکل کرانسانیت، ملک اورقوم کے لئے کچھ کررہے ہیں یاکرنا چاہتے ہیں ایسے لوگ ہمیں یہاں برداشت نہیں۔
سابق وزیراعظم نوازشریف بھی اس ملک اورقوم کے لئے کچھ کرناچاہتے تھے، اپنی طاقت، ہمت اوربساط کے مطابق اس نے بہت کچھ کربھی لیا تھا لیکن اس کے ساتھ پھرکیاہوا؟ یاہم نے ان کے ساتھ کیاکیا؟ یہ اب کوئی راز نہیں رہا ہے۔ یہ ہماری عادت اور یہاں کی روایت ہے کہ جوبھی شخص پاگل بن کرملک، قوم اور انسانیت کی بقاء وفلاح کے لئے آگے بڑھتا ہے ہم سب مل کراس کا راستہ روکنے کی کوششیں اور تدبیریں شروع کردیتے ہیں۔ ملک وقوم کی ترقی اورانسانیت بچانے کے لئے سونہیں بلکہ ہزار میں کوئی ایک آگے بڑھتا ہے مگر افسوس اس ایک کا راستہ روکنے کے لئے پھر ہزاروں نہیں لاکھوں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ جس طرح ہم لوگ محب وطن، ایماندار، درددل اور اس مٹی وانسانیت سے محبت کرنے والوں کی ٹانگیں کھینچنے کے لئے متحد ہوتے ہیں اس طرح اگر ہم انسانیت کی بقاء وفلاح کے لئے ایک ہوتے تو آج ہمارا یہ حال نہ ہوتا۔
نوازشریف کواقتدار سے الگ اور کرسی سے اتار کر ہمیں کیاملا؟ حکومت اور اقتدار چھوڑنے سے نوازشریف کاتوکچھ نہیں گیالیکن ایک نوازشریف کے جانے سے اس ملک اور قوم کاجو کچھ گیاوہ بیان کرنے سے بھی باہر ہے۔ آج لوگ دامن میں مسائل کے انباردیکھ کر کوئی عمران خان اور کوئی پی ڈی ایم کوبرا بھلاکہہ رہے ہیں لیکن اس نکتے پر نہ کوئی بولتا ہے اور نہ کوئی سوچتا ہے جس ایک نکتے نے محرم سے ہمیں مجرم بنادیا۔ عمران خان ہوں یاپی ڈی ایم کے قائدین ان کو برابھلاکہنا اور تنقید کا نشانہ بنانا اپنی جگہ ان مسائل میں ان کابھی ہاتھ اور کردار ہے ہمیں اس سے انکار نہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اس ملک کی تباہی اس دن ہی شروع ہوگئی تھی جس دن اقامہ کو بہانہ بنا کر ہم نے نوازشریف کواقتدار سے الگ کیا۔
ایک نوازشریف ہی نہیں اس ملک میں جوبھی عوام کی فلاح اور انسانیت کی بقاء کے لئے آگے بڑھا ہم نے اس کاانجام نوازشریف جیسا کیا۔ وزارت عظمیٰ، اقتدار اور حکومت یہ تو بڑی گیم ہے یہاں سازشیں بھی ہمیشہ بڑی ہوتی ہیں، مسند اقتدار پر پھر اگر نوازشریف جیسے لوگ ہوں توان کے خلاف کچھ نہ کچھ کرنا فرض سمجھ لیاجاتا ہے۔ یہاں تونچلی سطح پربھی کوئی نوازشریف جیسی غلطی کرکے ملک وقوم کے لئے کچھ کر گزرنے کا ارادہ کرتا ہے تو ہماری سازشوں سے وہ بھی پھر محفوظ نہیں رہتا۔ اس ملک میں دکھی انسانیت کی بے لوث وبے نوٹ خدمت کرنے والوں کو نہ صرف یہاں کے لوگ پاگل کہتے ہیں بلکہ ان پر پتھر برسا کر سنگ باری بھی کرتے ہیں۔ میرے آبائی ضلع بٹگرام کے ڈاکٹر نثار کو بھی لوگ پاگل کہتے ہیں۔
ڈاکٹرنثار اس لئے پاگل ہے کہ وہ سال دو نہیں پندرہ بیس سال سے ذات ومفادکوپس پشت ڈال کر دکھی انسانیت کی خدمت کررہے ہیں۔ آج کے ڈاکٹرزمال، دولت، گاڑی بنگلوں اور بڑے بڑے نوٹوں کے پیچھے بھاگتے ہیں لیکن ہم اپنی ان گناہ گار آنکھوں سے ڈاکٹرنثار کو مریضوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا۔ کسی کی جیب میں پیسے ہے یانہیں۔ کوئی امیر ہے یاغریب، اپناہے یاکوئی بیگانہ۔ سب بلاکسی روک ٹوک کے ڈاکٹرنثار کے پاس آکر اپنا علاج کرا دیتے ہیں۔ جس شہر اور ضلع میں ڈاکٹرنثار جیسے قوم کے حقیقی مسیحا کے دروازے عام وخاص کے لئے چوبیس گھنٹے کھلے ہوں وہاں مسیحائی کے نام پر عوام کولوٹنے والوں کی نانی کوپھرہارٹ اٹیک تو ہونا ہی ہے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ڈاکٹرنثار جیسے لوگوں کو دیکھ کر ان جیسے بے ضرر، معصوم اور رحمدل بننے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ الٹ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ ڈاکٹرنثار جیسے لوگ بھی ہمارے جیسے چور، ڈاکو، لوٹے، لٹیرے اور ظالم بن جائیں۔ بٹگرام میں صحت کے نام پرغریب عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں اور سرکاری ہسپتال میں ڈیوٹی نہ کرنے والوں سے کسی کو کوئی مسئلہ نہیں۔ وہ جو لوگ پرائیوٹ ہسپتال اور کلینکس پر عوام کی چمڑی ادھیڑ رہے ہیں ان سے بھی کسی کوئی گلہ نہیں لیکن ڈاکٹرنثار سے ہمیں مسئلہ اور گلہ اس لئے ہے کہ وہ غریب عوام کا مفت علاج کرکے دکھی انسانیت کے زخموں پر مرہم کیوں رکھ رہے ہیں۔
صرف نوازشریف نہیں اس ملک میں ڈاکٹرنثار جیسا ایک عام اورنچلے طبقے کا وہ بندہ بھی جوکسی نہ کسی طرح عوام کے لئے خیر، بھلائی اور سہولت کا باعث بن رہا ہے وہ ہماری آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے۔ اس معاشرے میں ہر وہ حکمران، ہر وہ سیاسدان، ہر وہ مولوی، ہر وہ ڈاکٹر، ہر وہ انجینئر، ہر وہ پولیس، ہر وہ وکیل اور ہروہ تاجرو سرمایہدار جواندھیروں میں روشنی بن کرعوام اور انسانیت میں کچھ خیربانٹ رہے ہیں وہ سب ہمیں دشمن نظر آرہے ہیں۔ ہماری تباہی اور بربادی کے اور بھی بہت سارے اسباب اور وجوہات ہونگی لیکن ہرمحب وطن، رحمدل اور ملک و قوم کے لئے کچھ کر گزرنے والے کودشمن کی نظر سے دیکھنے کی جو وجہ اور سبب ہے یہ تمام اسباب اور وجوہات پر بھاری بہت بھاری ہے۔
کوئی مانیں یانہ پر حقیقت یہ ہے کہ آج ہمیں جومار پڑ رہی ہے اس کی بنیادی وجہ محسنوں کو دشمنوں کے صف میں لاکھڑا کرنا ہے۔ جہاں نوازشریف اورڈاکٹرنثار جیسے لوگوں کی قدرنہ ہووہاں پھرچور، ڈاکو، لوٹے اور لٹیرے بنتے ہیں قوم کادکھ، درد اور غم بانٹنے والے نہیں۔ ایسے کتنے لوگ جو اس ملک اور قوم کے لئے دل وجان سے کچھ کرنا چاہتے تھے ہماری انہی حرکتوں، رویوں، ضداور عناد کی وجہ سے وہ گمنام ہوگئے۔ ہمیں ملک وقوم کے لئے کچھ کرنے والوں کی ٹانگیں کھینچنے کے بجائے ایسے عظیم لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرنے چاہئیں۔ نہیں توگلی سے شہر اور شہر سے اقتدار کے ایوانوں تک پھر ایسے لوگ ہمیں دیکھنے سے بھی نہیں ملیں گے، کیونکہ جہاں اچھی، نیک اور خدا ترس لوگوں کی قدرنہ ہو وہاں پھر چوروں، ڈاکوؤں، لوٹوں، لٹیروں اور بے ایمانوں کاہی راج ہوتا ہے۔