دیہاڑلگانے والے غریب مزدورکوپندرہ بیس ہزارکاآنے والاصرف ایک بجلی کابل اٹھاکردیکھیں تواس میں ٹیکس کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں۔ وہ کونساٹیکس ہے جواس بل میں فیکس نہیں۔ سرسے پاؤں تک ٹیکس ہی ٹیکس۔ اسے آنکھیں کھول کردیکھیں تویہ بل کم اورٹیکس کاڈاکخانہ یاکارخانہ زیادہ لگتاہے۔ یہی حال گیس، فون اوردیگربلزکابھی ہے۔ اس ملک میں رہنے والے عوام کی اکثریت غریبوں کی ہے اوریہ وہ غریب ہیں جوسچ مچ میں خط غربت سے نیچے زندگی گزارر ہے ہیں۔
پندرہ بیس فیصدنکال کرباقی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جوپائی پائی جوڑاوردانہ دانہ جمع کرکے زندگی کومشکل سے آگے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ کارخانے اور فیکٹریاں ان کی ہے نہیں۔ آباؤ اجدادان کے اسی غربت میں دنیاسے گئے اس لئے جاتے ہوئے وہ ان کے لئے کوئی فلورملز، شوگرملزیاکوئی سٹیل مل وراثت میں چھوڑکرنہیں گئے۔ جہازاوربحری بیڑے ان کے بڑوں کے پاس تھے نہیں کہ ان کے جانے کے بعدیہ ان کے مالک بنتے۔
ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ان اسی پچاسی فیصدعوام کے پاس نہ کوئی گیسٹ ہاؤسزہیں اورنہ کوئی بڑے اورعالی شان پلازے۔ پاپڑاورچورن والی چھوٹی چھوٹی دکانوں سے زیادہ ان کاکوئی کاروباربھی نہیں ہوگا۔ ان کی زندگی اورگزربسرماچس کی ڈبی، آٹا، گھی، چینی، بجلی، گیس وپٹرول سے شروع ہوکرکفن کے چند گز کپڑے پر ختم ہوتی ہے۔ اب ماچس کی چھوٹی سی ڈبی سے لیکرکفن کے کپڑے تک یہ غریب لوگ جوبھی چیزلیتے ہیں یااستعمال کرتے ہیں یہ ہاتھوں میں لینے اوراستعمال کرنے سے بھی پہلے اس کی اصل قیمت کے ساتھ اس کاٹیکس اداکردیتے ہیں۔ اب تویہ غریب کسی ہوٹل میں کھاناکھائیں یاکسی شاپنگ مال سے کچھ خریدنے جائیں توبھی ہوٹل اورشاپنگ مال سے یہ تب تک باہرنہیں نکلتے جب تک یہ ٹیکس نہ دیں۔
کریانہ کی ایک چھوٹی سی دکان سے لیکربڑے شاپنگ مال تک، جی ٹی روڈسے لیکرموٹروے تک، بجلی بل سے لیکرگیس بل تک، ماچس کی ڈبی سے لیکرصابن کی ٹکیہ تک بے چارے ان غریب کے پیچھے ہرجگہ ٹیکس ہی ٹیکس توگھوم اورپھررہا ہے لیکن پھر بھی ظالم کہتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔
ہمارے محلے میں ایک باباجی کی دکان ہے، کام شام توآج کل ہے نہیں، وہ پاؤں پرپاؤں رکھ کرمچھراورمکھیاں مارتے وبھگاتے رہتے ہیں کچھ دن پہلے دکان سے گزرتے ہوئے ہم نے ازراہ مذاق پوچھاکہ باباجی ہمارے وزیر، مشیر، حکمران اورمہربان اتنے خفاء ہو رہے ہیں تو آپ ٹیکس کیوں نہیں دیتے؟ باباجی نے سرسے ٹوپی ہٹاتے ہوئے کہاکہ ٹیکس دیتے دیتے بال ہمارے سفیدہوگئے ہیں، اب اورکچھ تونہیں ایک جان بچی ہے اگرکوئی اس کوٹیکس کہتایاسمجھتا ہے توہم یہ بھی دینے کے لئے تیار ہیں۔
کچھ نادان اورہمارے حکمران تویہ کہتے اورسمجھتے ہیں کہ یہی اسی پچاسی فیصدلوگ جنہیں ہم غریب کہتے ہیں یہ سرے سے ہی ٹیکس نہیں دیتے ان کے نزدیک اصل مجرم اورگناہ گاریہی غریب لوگ ہیں لیکن حقیقت کی دنیامیں ایسا نہیں۔ وہ پندرہ بیس فیصدطبقہ جسے لوگ اشرافیہ کہتے ہیں اس کانہیں پتہ کہ یہ طبقہ ٹیکس دیتاہے یانہیں کیونکہ جب اس طبقے کے بارے میں یہ علم ہی نہیں کہ بجلی، گیس بل، پٹرول، آٹا، چینی، چاول اوردال سے اس طبقے کا کوئی لینا دینا و آمنا سامنا ہے بھی کہ نہیں توایسے حالات میں پھراس پندرہ بیس فیصدکے بارے میں کچھ کہنا مناسب نہیں لیکن اشرافیہ کوچھوڑکرغریبوں کے بارے میں پوری دنیاجانتی ہے کہ یہ غریب لوگ اشیائے ضروریہ کیا؟ اس ملک میں اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے اوربولنے پربھی ٹیکس دے رہے ہیں۔ وہ کسی نے ٹھیک کہاکہ چھٹی ان کوملی جن کوسبق یاد نہ تھا۔
یہاں جن کوسبق یادہوتاہے ان کو چھٹی نہیں ملتی۔ وہ غریب لوگ جوصبح وشام ٹیکس کی گنگامیں غوطے اورڈبکیاں لگاکرنہارہے ہیں ان کے بارے میں کہاجارہاہے کہ یہ ٹیکس نہیں دیتے اورجوسچ میں ٹیکس نہیں دیتے بلکہ غریبوں کے ٹیکسوں پرعیاشیاں کر رہے ہیں ان سے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ غریبوں کا جہاں سے اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا اور چلنا پھرنا شروع ہوتا ہے غریب وہاں سے ٹیکس دینا شروع کر دیتے ہیں اورجہاں تک ان کابس اوروس چلتاہے یہ ٹیکسز دیتے رہتے ہیں۔ اب فیکٹریاں اور کارخانے ان کے نہیں، ہوائی جہازاوربحری بیڑوں کے یہ مالک نہیں، لاکھوں اور کروڑوں کا ان کا ایسا کوئی کاروبار نہیں کہ جس پریہ ٹیکس دیں۔
اشرافیہ کے گناہوں اورعیاشیوں کے کفارے یہ پہلے ہی بھاری بلوں اور سو طرح کے ٹیکسوں کے ذریعے ادا کر رہے ہیں اب ان کے پاس اتنے وسائل توہے نہیں کہ یہ اشرافیہ کے کارخانوں، فیکٹریوں، ملز، پلازوں اور کاروبار کے ٹیکسز بھی دیتے جائیں۔ صرف فائلراورنان فائلرکے الفاظ تقسیم کرنے سے ٹیکس والامسئلہ حل نہیں ہوگا، حکومت کواس ملک میں رہنے والے ہر شخص کے بارے میں یہ پتہ ہے کہ کون کتنے پانی میں ہے؟ ڈالرز اور بھاری سرمایہ کس کے پاس ہے؟
کارخانوں، فیکٹریوں، ملز اور بڑے بڑے کاروبارکے مالک کون ہیں؟ حکومت کے پاس ہرشخص کاریکارڈہے۔ کوئی غریب ایک ماہ بجلی اورگیس کابل جمع نہ کرے توبل جمع نہ کرنے کی وجہ سے فوراً اس کاکنکشن کاٹ دیاجاتاہے۔ ملک وقوم کودونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے یہ ٹیکس چوراگرٹیکس نہیں دیتے توپھرغریبوں کی طرح ان کے کنکشن کیوں نہیں کاٹے جاتے؟ حکمرانوں کی رضامندی اوراجازت کے بغیرتوانسان کیا؟ مچھربھی پرنہیں مارسکتا پھریہ کیسے ہوسکتاہے کہ حکومت لیناچاہے اورکوئی ٹیکس نہ دے۔ یہ ماننے والی بات نہیں۔
غریب عوام کوٹیکس نہ دینے کاالزام دینے کے بجائے حکومت کوسنجیدہ ہوکربڑے بڑے ٹیکس چوروں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئیے۔ یہ کوئی بات نہیں کہ بڑے بڑے ٹیکس چورمزے اورعیاشیاں کریں اوروہ غریب عوام جواپنے بوجھ کے ساتھ اشرافیہ کے گناہوں کی قیمت بھی چکارہے ہیں ان کے بارے میں پھریہ کہاجائے کہ، عوام ٹیکس نہیں دیتے، یہ صرف ظلم نہیں بلکہ پرلے درجے کی بے حسی بھی ہے۔