دوہزاراٹھارہ کے بعداس ملک میں مہنگائی نے عوام کاکچھ زیادہ ہی براحال کردیاہے۔ پہلے صرف ہمارے جیسے غریب لوگ مہنگائی کارونارویاکرتے تھے اب حالات یہ ہوگئے ہیں کہ اچھے بھلے سرمایہ داراوربڑے بڑے تاجربھی مہنگائی کاروناروتے دکھائی دے رہے ہیں۔ غریب اورنچلے طبقے کی تومہنگائی نے کمرتوڑکررکھ دی ہے۔
نادانوں کے کپتان چارسال پہلے اس ملک میں تاریخی نہیں جوتاریکی تبدیلی لیکرآئے اس کے اثرات ابھی تک زائل نہیں ہوسکے ہیں۔ اوپرسے کے پی کے والوں کی قسمت دیکھیں کہ نوسال تک صوبے میں تباہی لانے والے اب پھران پرمسلط ہوگئے ہیں جنہیں عوام اورصوبے کی کوئی فکرہی نہیں۔ ان کاکوئی کام اوراقدام اگرعوام اورصوبے کے حق میں ہوتاپھرتوکوئی بات تھی لیکن ان کے توسیاہ وسفیدسارے کرتوت ہی اپنی ذات ومفادتک ہوتے ہیں۔
تاریخ میں پہلی بارانہوں نے وفاق سے پہلے بجٹ پیش کرکے نفاق کی ایک نئی روایت ڈال دی پراس میں بھی غریبوں کو کچھ نہیں ملا۔ وہ ایمانداراورامانت دارحکمران جووفاق سے عوام اورصوبے کاحق لینے کی بڑھکیں مارتے ہوئے نہیں تھکتے اورجنہوں نے راتوں رات اپنے مراعات میں یک دم کئی گناہ اضافہ کیاان حکمرانوں نے بجٹ میں صوبے کے غریب سرکاری ملازمین اوربوڑھے پنشنرزکی تنخواہوں اورپنشن میں صرف دس فیصداضافہ کردیاہے۔ تیس، چالیس اورپچاس ہزارتنخواہ لینے والے غریب ملازم کے لئے سال بعدتنخواہ میں دس فیصدکے حساب سے دوڈھائی ہزارروپے اضافہ کیاشے ہے؟ اتنے پیسے توحکمران بجلی، گیس بل میں ایک چھوٹاساٹیکس لگاکرغریبوں سے نکال لیتے ہیں۔
خیبرپختونخواکی صوبائی حکومت نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن میں جودس فیصداضافہ کیاہے یہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہے۔ ایسے حالات میں جب ملک میں مہنگائی عروج پراورکوئی بھی چیزسستی نہیں غریب ملازمین کی تنخواہوں میں دس فیصداضافہ حکمرانوں کے اپنے منہ پرطمانچہ ہے۔ اپنے مراعات اورالاؤنسزمیں سوسوفیصداضافہ کرنے والے حکمرانوں کوغریبوں کی تنخواہوں اورپنشن میں دس فیصداضافہ کرکے خداکاخوف توکرناچاہئیے۔
سرکاری ملازمین میں اکثریت نچلے طبقے کی ہے۔ ماناکہ سرکاری ملازمین میں گریڈچودہ پندرہ سے اوپربہت سارے افسراوربیوروکریٹ حکمرانوں، وزیروں اورمشیروں کی طرح مزے کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہوں میں بھی خاطرخواہ اضافے کے ساتھ ان کے الاؤنسزبھی اچھے خاصے بڑھ جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اورپنشن کی جب بات آتی ہے توعام لوگ بھی پھرطرح طرح کی باتیں کرناشروع کردیتے ہیں کہ پوراملک یہ سرکاری ملازمین کھاگئے، پہلے ہی ان کی تنخواہیں اورمراعات زیادہ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ان لوگوں کویہ نہیں پتہ ہوتاکہ سرکاری ملازمین میں ایسے غریب بھی شامل ہیں جن کوماہانہ صرف تیس سے چالیس ہزارتنخواہ ملتی ہے۔
اب تیس چالیس ہزارتنخواہ والے ملازمین کی تنخواہوں میں سال بعد دوڈھائی ہزار روپے اضافہ ہوگاتواس سے ان بے چاروں کاکیاہوگا؟ مہنگائی توسال میں سوسے بھی آگے دوسوفیصدتک بڑھتی ہے۔ اب خودسوچیں سواوردوسوفیصدکے سامنے دس فیصدکی کیااہمیت اورحیثیت ہے۔ جہاں انصاف کانظام اورخداسے ڈرنے والے حکمران نہ ہوں وہاں پھرایساہی ہوتاہے۔ حکمرانوں، وزیروں، مشیروں اوربیوروکریٹ کی تنخواہوں، مراعات اورالاؤنسزمیں توسوفیصداضافہ ہولیکن بات جب ایک غریب اورمزدورکے جینے کی آئے تووہاں پھران ظالم حکمرانوں کی سوچ اورقلم دس فیصدسے آگے نہ جائے۔
ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اوربے حسی کی وجہ سے یہاں کی بیوروکریسی نے سرکاری ملازمین کو ڈھال بنا کر اپنے لئے مراعات و تنخواہیں بڑھا نے کاایسانظام بنایاہواہے کہ بیوروکریسی اوراعلیٰ افسران کی تنخواہیں ومراعات توبڑھ جاتی ہیں لیکن چھوٹے سرکاری ملازمین کا حال ویسا کا ویساہی رہتا ہے۔ اس ملک میں تنخواہیں بنانے کا جو طریقہ کار ہے وہ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ اضافہ اوپر والے طبقے کو ملے اور نچلا طبقہ جن کو ڈھال بنا کر اضافے کے نعرے لگائے جاتے ہیں وہ پھر اگلے سال کا انتظار کرتے پھرے۔
10 پندرہ فیصد اضافے سے نچلے سکیل والوں کی تنخواہوں میں تقریباً ڈیڑھ دو ہزار کا اضافہ ہوتا ہے جو اس مہنگائی کے سامنے کچھ بھی نہیں لیکن اوپرسکیل والوں کی تنخواہوں میں دس فیصدکے حساب سے بھی اچھاخاصا اضافہ ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اس ملک میں حکمرانوں کے ساتھ اعلیٰ افسران اوربیوروکریٹ بھی مزے کررہے ہیں لیکن غریب ملازمین کاحال نہیں بدل رہا۔ اوراس نظام وطریقہ کارمیں ان کاحال بدل بھی نہیں سکتا۔
جن کی جیبوں سے بجلی، گیس بلز، پٹرول، آٹا، چینی، گھی اوردال وچاول کی بڑھتی قیمتوں کے ذریعے آپ ایک لمحے میں پانچ دس ہزار روپے نکال لیتے ہیں سال بعداگرآپ ان کی تنخواہوں اوراجرت میں دوتین ہزارروپے اضافہ کربھی دیں تواس سے ان کاکیاہوگا؟ عام لوگ توپھربھی اپنی مرضی سے اپنانظام چلاتے ہوں گے لیکن غریب سرکاری ملازمین کاپورانظام ہی توان کی انہی تنخواہوں پرچلتاہے۔ یہ تونہ اپنی تنخواہیں بڑھاسکتے ہیں اورنہ ہی پنشن۔
مزدورکواگرکہیں دیہاڑی کم مل رہی ہوتووہ مرضی سے اس دیہاڑی کوبڑھادیتاہے۔ الیکٹریشن، مکینک، پلمبراورانجینئراپنی مرضی کی اجرت لیتاہے۔ پرائیویٹ ڈاکٹرزبھی اپنی مرضی سے فیسیں بڑھا لیتے ہیں۔ اورتواورٹیکسی، رکشہ اورسوزوکی ڈرائیورزبھی حکومت سے پوچھے بغیر کرائے طے کر لیتے ہیں۔ محلے کے ایک عام دوکاندارکے لئے بھی من مرضی کی قیمتیں لگا کر گاہکوں کی کھال اتارنے میں کوئی پریشانی اورمشکل نہیں لیکن ایک یہ غریب سرکاری ملازم ہے جوحکمرانوں کے بغیرکچھ نہیں کرسکتا۔ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث سرکاری ملازمین کی قوت خرید تیزی سے جواب دیتی جا رہی ہے۔
پچھلے چارپانچ سالوں کے دوران روزمرہ کی عام استعمال ہونے والی اشیاء کی قیمتوں میں سو فیصد سے بھی زائد اضافہ ہو چکا ہے۔ صرف دودھ، دہی، چکن اور سبزیوں وپھلوں کی قیمتوں میں اضافے کی شرح سے ہی اصل اضافے کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کے پی کے حکومت نے توسرکاری ملازمین کومایوس کردیاہے وفاق کوکم ازکم سرکاری ملازمین کے دل جیتنے چاہئیں۔
وزیراعظم شہبازشریف اوروفاقی حکومت مہنگائی کی شرح کو سامنے رکھتے ہوئے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشنرز کی پنشن میں مناسب اضافہ کرے تاکہ یہ سفید پوش طبقہ جو کسی سبسڈی کا مستحق بھی نہیں ہوتا۔ اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے ہوئے سکون کے ساتھ جی توسکے۔