منزل اگر دل و دماغ میں متعین اور راستہ سیدھا ہو تو پھر دن رات کیا؟ مسلسل سالوں چلتے ہوئے بھی انسان تھکتا نہیں۔ تھکاوٹ، پریشانی اور تکلیف تب ہوتی ہے جب منزل متعین اور راستہ واضح نہ ہو۔ قرآن مجید فرقان حمید راہ ہدایت بھی ہے اور راہ نجات بھی۔ زندگی کیا ہے؟ منزل کہاں ہے؟ اور سیدھا راستہ کونسا ہے؟ یہ سب چیزیں ہمارے رب نے چودہ سو سال پہلے اسی قرآن مجیدکے ذریعے واضح کرکے ہمیں بتا دی ہیں۔
آج ہماری زندگیوں میں یہ جو تھکن، پریشانیاں اور تکلیفیں ہیں اس کی بڑی وجہ ہی سیدھے راستے سے بھٹکنا اور غلط راستوں پر چلنا ہے۔ جس قرآن مجید کو سینوں سے لگا کر ہم نے آگے چلنا اور بڑھنا تھا اس پاک کتاب پر غلافوں پر غلاف چڑھا کر ہم نے الماریوں میں بند کر دیا ہے۔ جس قرآن میں نہ صرف منزل اور سیدھے راستے کا تعین ہے بلکہ دنیا و آخرت کی ہر کامیابی کی کنجی اور راز بھی ہے۔ اس قرآن کو ہم بھلا کر غیروں کے راستوں پر چل نکلے ہیں۔ اسی وجہ سے آج ہمیں منزل کا کوئی تعین ہے اور نہ سیدھا راستے کا کوئی پتہ۔ کوئی خاص کام کاج، محنت اور مشقت نہ ہونے کے باوجود آج ہر شخص تھکا تھکا اور پریشان دکھائی دے رہا ہے اور تھکا و پریشان کیوں نہ ہو جب منزل کاکوئی تعین ہے اور نہ راستہ کوئی سیدھا، یہ ہم پہلے ہی بتا چکے کہ راستہ اگر سیدھا نہ ہو تو پھر دو منٹ کا چلنا بھی عذاب بنتا اور لگتا ہے۔
ہم اگر قرآن پاک کی تعلیمات پرعمل کرتے تو ہمارے ساتھ ایسا کبھی نہ ہوتا۔ جوں جوں ہم قرآن سے دور ہوئے اتنے ہی ہم تھکن، تکلیف اور پریشانیوں کے قریب ہوئے۔ جنت جن کی منزل ہو وہ پھر دنیا میں جنتیں تلاش نہیں کرتے لیکن ہمیں دنیا کمانے اور اپنانے سے فرصت نہیں۔ اللہ کے احکامات پرمن و عن عمل یہ سیدھا راستہ ہے۔ ہم میں سے ہر فرد اور شخص یہ سوچے کہ اس سیدھے راستے پر ہم اب تک کتنے چلے ہیں؟
قرآن کے رہنماء اصولوں کو سامنے رکھیں تو زندگی کوئی مشکل نہیں لیکن اپنی ادھوری خواہشات کی ناکام تکمیل کے لئے ہم نے یہ زندگی مشکل بہت مشکل بنا دی ہے۔ چند روز پہلے آبائی یونین کونسل بٹہ موڑی میں لڑکیوں کے ایک بڑے دینی مدرسے میں ختم قرآن اوردستارفضیلت کے نام سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا گیا تھا امسال چونکہ مدرسے سے سند فراغت حاصل کرنے والی بچیوں میں قریبی رشتہ دار ڈاکٹر روح الامین کی بچی بھی شامل تھی اس وجہ سے ہماری خوش قسمتی رہی کہ اس بہانے ہمیں بھی اس بابرکت پروگرام میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ مساجد و مدارس میں بیٹھنے، کچھ سیکھنے اور پڑھنے سے نہ صرف دلی سکون ملتا ہے بلکہ آخرت کی کامیابی کے لئے بھی راہیں ہموار ہوتی ہیں۔
ہماری آبائی یونین کونسل پر اللہ کی خاص رحمت ہے کہ وہاں عصری تعلیمی اداروں کے ساتھ ہر گائوں اور قصبے میں دینی مدارس بھی قائم و آباد ہیں۔ ان علاقوں میں بڑے بڑے علماء اور اولیاء کا قیام رہا جن کی برکت سے ان علاقوں میں رشدوہدایت کی شمعیں آج بھی روشن ہیں۔ بٹہ موڑی میں لڑکیوں کایہ مدرسہ ہرلحاظ سے مثالی ہے۔ شیطانی جالوں، دجالوں اور فتنوں کے اس دور میں ایسے مدارس اورعلمی مراکزبلاکسی شک وشبہ کے ہمارے لئے قدرت کی بہت بڑی نعمت ہے۔ ایسے ہی دینی مراکز کو دیکھ کر ہی تو دل کویہ اطمینان اور قرار آتا ہے کہ ہمارا مستقبل محفوظ ہے۔
ٹک ٹاک، پب جی اور موبائل انٹرنیٹ نے تو ہمارے بچوں کوکسی کام کانہیں چھوڑاہے۔ ایسے حالات میں اگریہ مدارس، سکول، کالج اور دیگر علمی مراکز نہ ہوتے تو ہمارے مستقبل کاکوئی حال نہیں تھایہ تو اللہ کاشکر و کرم ہے کہ ہرشہر اور ہر گائوں میں سرکاری سکولوں کے ساتھ مساجدومدارس بھی ہیں جس کی وجہ سے ہم مستقبل کے حوالے سے بڑی تباہی اوربربادی سے بچ رہے ہیں۔ صرف ایک منٹ کے لئے سوچیں کہ اگریہ سکول، یہ مساجد و مدارس نہ ہوتے تو پھر ہمارے بچوں جنہیں ہم، مستقبل، کہتے ہیں ہمارے اس مستقبل کا کیا حال ہوتا؟
مساجد و مدارس کی قدر و قیمت ان لوگوں سے جانیں جہاں نہ مسجدیں ہیں اورنہ مدرسے۔ دین کے حوالے سے توہم بڑے خوش قسمت ٹھہرے ہیں کہ یہاں ہر گھر، خاندان اورگائوں میں ہمارے پاس ایک نہیں دو دو عالم، مفتی اور قاری ہیں۔ سیاست اپنی جگہ، یہ گروپ، گروہ اور فرقوں کی لڑائی وتقسیم بھی ایک سائیڈپر۔ آپ ہرحال میں ان علماء کی قدرکیجئے کہ ان کی برکت سے آپ کامستقبل محفوظ ہے۔ اگر یہ علماء نہ ہوں۔ یہ مساجد و مدارس نہ ہوں، یہ خانقاہیں اور درگاہیں نہ ہوں توآپ کایہ مستقبل بھی ٹک ٹاک، پب جی اوردیگربے حیائی کے کاموں میں لگ کرنہ جانے کب کاتباہ اور برباد ہو چکا ہوتا۔
ہم سب کی آخری منزل آخرت ہے اور اس آخرت تک پہنچنے کیلئے جو سیدھا راستہ ہے وہ انہی مساجد و مدارس سے ہو کر جاتا ہے کیونکہ قبرحشر، آخرت اورصراط مستقیم سمیت انسان کی ہرکامیابی وکامرانی کا تفصیلی ذکر قرآن و حدیث میں ہے اور قرآن و حدیث کی تعلیم انہی مدارس میں دی جاتی ہے اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ، دینی مدارس، اسلام کے قلعے ہیں۔