ڈاکٹراشفاق احمدایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد کے سابق ہاسپیٹل ڈائریکٹررہے، مجھے اچھی طرح یادہے ہسپتال میں منعقدہ ایک تقریب جس میں انہیں بطورمہمان خصوصی مدعوکیاگیاتھا، تقریب سے اپنے خطاب میں ڈاکٹراشفاق نے ڈاکٹرز، پیرامیڈیکس اورہسپتال کے دیگرملازمین کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ بکریاں، گائے، بھینس، مرغیاں، بیل وغیرہ یہ غریب لوگوں کاکل سرمایہ ہوتے ہیں، یہ لوگ اپنی جان کا اتناخیال نہیں کرتے جتناپیار وہ اس کل سرمایہ سے کرتے ہیں لیکن جب یہی لوگ بیمارہوتے ہیں توپھریہ بکری، مرغی، گائے، بیل اوربھینس میں پیاری سی پیاری چیزبھی بیچ کران پیسوں پرآپ کے پاس علاج کیلئے آتے ہیں، پھروہ نہ صرف وہ پیسے آپ کے ہاتھ میں تھماتے ہیں بلکہ ساتھ دعائیں بھی دیتے ہیں تم وہ واحدخوش قسمت مخلوق ہوجسے لوگ پیسے بھی دیتے ہیں اورساتھ دعائیں بھی۔
اس لئے اپنے درپرآنے والے ایسے مجبوراوربے بس لوگوں کابہت خیال رکھناورنہ ایک بات یادرکھناایسے لوگ دعاؤں کے ساتھ پھر بددعائیں بھی دل کھول کردیتے ہیں۔ چنددن پہلے اپنے آفس کے باہرایک اسی سالہ باباکومختلف ڈاکٹروں کی پرچیاں اورلیبارٹریوں کے ٹیسٹ ہاتھوں میں اٹھائے باآوازبلندڈاکٹروں کوبددعائیں دیتے دیکھاتومجھے فوراڈاکٹراشفاق صاحب یادآگئے۔ مرغی، بکری، گائے اوربھینس بیچنے والے کاجب صحیح علاج نہیں ہوتاتوپھروہ اسی طرح پرچیاں اٹھائے ڈاکٹروں کوبددعائیں دیتے پھرتے ہیں۔ بائیں ہاتھ اوربازومیں تکلیف ومسئلے کی وجہ سے پچھلے پانچ چھ مہینوں میں درجن سے زائدڈاکٹروں اورحکیموں سے میرابھی واسطہ پڑا۔
سچ یہ ہے کہ پیسے کی لالچ اورزیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کے چکرمیں ہرڈاکٹرکومیں نے پہلے والے سے بڑھ کرپایا۔ پندرہ میں کوئی دواورسومیں کوئی پانچ دس ڈاکٹرایسے ہوں گے جوکہہ اورسوچ رہے ہوں گے کہ میرابھلاہویانہ۔ کم ازکم مریض کااچھاہو، باقی اکثریت اس تاک اورانتظارمیں بیٹھی رہتی ہے کہ مریض کابھلاہویانہ لیکن ان کابھلاہرحال میں ہو۔ لوگ مولویوں کوانتہاپسندکہتے ہیں ان ڈاکٹروں کے سامنے تومولویوں کی انتہاپسندی کچھ بھی نہیں۔ مولوی توپھربھی دوسرے مولوی کی کوئی نہ کوئی بات، وعظ اورنصیحت مان لیتے ہیں برداشت کرلیتے ہیں۔
یہ ڈاکٹریہ تودوسرے ڈاکٹرکی صحیح اورسچی بات ماننے کے لئے بھی تیارنہیں ہوتے۔ مولویوں نے دس دس اینٹ کی الگ مسجدیں بنائی ہیں لیکن قوم کے ان نام نہادمسیحاؤں نے ایک چھت، ایک پلازے اورایک مارکیٹ میں ساتھ ساتھ جوقصاب خانے کھولے ہیں وہ پانچ پانچ اینٹوں کے بھی نہیں ہوں گے۔ آپ ایک ڈاکٹرسے چیک اپ کرکے پھردوسرے کے پاس جاتے ہوئے اسے وہ پہلے والے ڈاکٹرکی پرچی دکھائیں نا۔ ہرڈاکٹریہ سمجھتاہے کہ اس سے زیادہ تجربہ کاراورسپیشلسٹ اس زمین پراورکوئی نہیں۔ پھرہرڈاکٹرنے اپنے حساب سے اپنی فیس مقررکی ہوئی ہے۔
چندایک ڈاکٹرزکے علاوہ اکثرکے کلینک پرجانے والے اگراس ڈاکٹرکے مریض نہ بھی نکلیں تب بھی وہ ڈاکٹرزپیناڈول، بروفن، کف سیرپ اورسربیکس ذی لکھ کراپنی فیس کی راہ ہموارکریں گے آگے اس پیناڈول اوربروفن سے کسی پرفرق پڑے یانہ۔ اس سے ان ڈاکٹرزکاکوئی لینادینانہیں، اسی لئے تواکثرڈاکٹروں کے کلینک پرمریضوں سے زیادہ وہ دوائیاں بیچنے والے بیوپاری شہدکی مکھیوں کی طرح بھنبھناتے ہیں۔ ڈاکٹربھی مرض دیکھ کرنہیں ان بیوپاریوں کی ڈیمانڈپڑھ کرمہنگی اوربھاری دوائیوں کی شکل میں ہرغریب ولاچارمریض کے لئے ریمانڈتجویزکرتے ہیں۔
میں ہرگزیہ نہیں کہتاکہ سارے ڈاکٹرایسے ہیں اس ملک اوراس مٹی پرمیں نے ڈاکٹرعطاء اللہ شاہ بخاری مرحوم، ڈاکٹرجعفرمرحوم، ڈاکٹرکامران رضوی، ڈاکٹررقیہ سلطانہ، ڈاکٹرغیور، ڈاکٹرنثار، ڈاکٹرعبدالماجداورڈاکٹرآمین آفریدی جیسے ایک نہیں درجنوں اورسینکڑوں ڈاکٹروں کومسیحاکے حقیقی روپ میں دیکھالیکن اسی مٹی اورزمین پرمیں نے پیسے کی لالچ اورحرص میں غریبوں، مجبوروں اورلاچاروں کی جیبیں کاٹنے اورانہیں پائی پائی کامحتاج بنانے والے درجنوں وسینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں ڈاکٹروں کومسیحائی کے ماتھے پرکالک ملتے ہوئے بھی دیکھا۔
پنجاب، سندھ اوربلوچستان کاتونہیں پتہ لیکن خیبرپختونخوامیں عمران خان کے صحت کارڈاورایم ٹی آئی ایکٹ نے سرکاری ہسپتالوں کابیڑہ غرق کرکے رکھ دیاہے۔ صحت کارڈکے نام پرپرائیوٹ ہسپتالوں میں جوپیسہ جھونکاگیااسی کی برکت ہے کہ آج سرکاری ہسپتالوں میں عوام کوفری ٹیسٹ اورادویات کی سہولت دستیاب نہیں۔ صحت کارڈکی پیدائش سے پہلے سرکاری ہسپتالوں میں ویسے بھی غریبوں کامفت علاج ہوتاتھالیکن کپتان کے صحت کارڈنے غریبوں سے سرکاری ہسپتالوں کاواحدسہارابھی چھین لیاہے۔ اب سرکاری ہسپتال ہے یاپرائیوٹ۔ چھریاں ہرطرف اورہرسمت تیزہیں، مفت علاج سے شروع ہونے والاسفرموت لاعلاج کے اعلانات، ارشادات اورفرمودات پراختتام کے قریب پہنچ چکاہے۔ یہی حالات اورڈاکٹروں کااگریہی رویہ رہاتووہ دن دورنہیں جب یہی لاعلاج موت ہرگھراورفرد کامہمان بنے گا۔
جس شخص کے پاس ایک وقت کی روٹی کے لئے کچھ نہیں وہ ڈاکٹروں کی دواورتین ہزارفیسیں کہاں سے بھرے گااورٹھیکہ ماردوائیاں کیسے اورکہاں سے خریدے گا؟ یہ مال، یہ دولت اوریہ تجوریوں پربھری تجوریاں فرعون اورقارون جیسے اژدھوں سے بھی رہ گئیں اوریہ سب کچھ ان قصائیوں سے بھی ادھرہی رہے گا۔ یہ سب بھی خالی ہاتھ اس دنیاسے جائیں گے۔ ہرروزپارٹ ٹائم میں دوتین گھنٹے لگاکرغریبوں سے ہزاروں نہیں لاکھوں روپے بٹورنے والے ڈاکٹروں کے پیٹ اگر نہیں بھرے تویہ مٹی کے علاوہ کسی بھی چیزسے کبھی نہیں بھریں گے۔
ماناکہ غریبوں کاعلاج ڈاکٹروں کے پاس ہے لیکن ڈاکٹروں کاعلاج مٹی کے سواکسی کے پاس نہیں۔ یہ روزانہ مجبورولاچارلوگوں سے لاکھوں روپے بٹورنایہ کوئی کمال نہیں۔ اصل کمال اور کمائی وہی ہے جوخدمت خلق اورانسانیت کے نام پرآگے بھیجی جائے۔ اس لئے تمام ڈاکٹرزمسیحابنیں قصائی نہ۔ تاکہ کل کورب کے سامنے پیشی کے موقع پر کم ازکم کسی ڈاکٹرکواپنے پیشے، کام اوراعمال پرکوئی افسوس اورشرمندگی تو نہ ہو۔