لیڈروں اور سیاستدانوں کوسیاست سیاست کھیلنے سے فرصت نہیں اور بے چارے غریب عوام بجلی، گیس کے بھاری بلوں اور کمر توڑ مہنگائی کے باعث ایک لمحے کے چین اور سکون کے لئے ترس و تڑپ رہے ہیں۔ گرمیوں میں بجلی بلوں سے جان نہیں چھوٹتی جونہی گرمیاں ختم ہوتی ہیں توگیس بلوں کے خودکش حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ غریب کیا؟ گیس بلوں نے اب تو اچھے بھلے لوگوں کے ہوش بھی اڑا دئیے ہیں۔ وہ جو لوگ جن کی کل ماہانہ آمدن بھی چالیس پچاس ہزار نہیں ان لوگوں پر بھی پندرہ سے تیس چالیس ہزار کے بل آنے لگے ہیں۔ بجلی اور گیس کے ان بھاری بلوں کودیکھ کر اب لوگوں کویہ سمجھ نہیں آرہی کہ بل دئیے جائیں یابچوں کے پیٹ میں کچھ ڈالا جائے۔
سوچنے کی بات ہے جن لوگوں کی ماہانہ آمدن ہی چند ہزار ہو، جو لوگ دیہاڑی دار اور مزدور ہو، جن کے پاس دن کی ایک دیہاڑی اور مزدوری کے سوا کچھ نہ ہوایسے لوگ دن کی دیہاڑی اور مزدوری سے اپنے بچوں کے پیٹ پالیں یاگیس اور بجلی کے یہ بھاری بل بھریں۔ ہمارے حکمرانوں، لیڈروں اور سیاستدانوں کو تو اس چیزکی کوئی پرواہ نہیں لیکن اللہ گواہ ہے کہ اس ملک میں رہنے والے غریب اس وقت مشکل بہت مشکل سے زندگی جی رہے ہیں۔ ایسے بھاری بلوں کے بعدتوگیس وبجلی کااستعمال درمیانہ طبقوں کے لئے بھی آسان نہیں رہا ہے پھر خط غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے تواب اس کے قابل بھی نہیں رہے ہیں۔
سونے کا چمچ منہ میں لئے پیدا ہونے والے تو مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کومذاق اور کہانیاں سمجھتے ہیں لیکن جولوگ ایک وقت کی روٹی کے لئے تڑپ اور ترس رہے ہیں ذرہ ان سے پوچھیں کہ مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کا دکھ اور درد کیا ہے؟ جب گیس اور بجلی کی سہولت موجود ہو پھر کوئی دیا اور لکڑیاں جلاتے ہیں؟ گائوں اور دیہات نہیں بلکہ ایسے شہروں میں جہاں چوبیس گھنٹے گیس کی سہولت موجود ہوتی ہے انہی بھاری بلوں، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کے باعث اس قوم کی کئی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کو کھانا پکانے کے لئے لکڑیاں جلاتے دیکھا ہے۔
جب گیس اور بجلی والوں کے بڑے بڑے پیٹ بھرنے کے لئے پیسے نہیں ہوں گے تو پھر ہماری مائیں، بہنیں اوربیٹیاں گائوں اور دیہات کے ساتھ شہروں میں بھی لکڑیاں نہیں جلائیں گی تو اور کیا کریں گی؟ اپنی سیاست، انتخابات، ہار اور جیت کی فکر سب کو ہے لیکن اس ملک میں روٹی کے ایک ایک نوالے کے لئے ایڑیاں رگڑنے والے غریب کی فکر اور پرواہ کسی کو نہیں۔ غریب کا ووٹ تو سب کو چاہئے لیکن غریب کا سکھ اور چین کوئی نہیں چاہتا۔
اس ملک میں غریبوں کی حالت زار اور مہنگائی، غربت و بیروزگاری کی شکل میں ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ غریب جینے کے لئے پیدا ہی نہ ہوا ہو۔ بجلی، گیس بلوں اور کھانے پینے کی اشیاء پر فکسڈ چارجز اور فلاں فلاں ٹیکس کے نام پر ہر چڑھتے سورج کے ساتھ غریب کو زندگی سے مزید دور کیا جا رہا ہے۔ مارکیٹ میں دستیاب ٹیکس کا ہر فارمولہ ان غریبوں پر آزمایا گیا، وہ کونسا ٹیکس ہے جو اس ملک میں غریبوں پر نہیں لگا۔ ماچس کی ڈبی سے لیکر پیناڈول کی ایک گولی تک ہر چیز پر غریب قیمت سے بھی زیادہ ٹیکس دیتے ہیں، بجلی سے لیکر گیس اور روڈ سے لیکر پبلک پارک تک ہر چیز پر ڈبل نہیں ٹرپل ٹیکس لاگو ہے۔
ادویات سے لیکرکھانے پینے کی اشیاء تک ایسی کوئی چیز نہیں جس پر غریب سے ٹیکس وصول نہ کیا جاتا ہو۔ کہتے ہیں کہ عوام کے اس ٹیکس سے ملک چلتا ہے۔ غریبوں کاخون نچوڑنے سے اگر ملک چلتاہے تو پھر آئی ایم ایف اور امیر ممالک سے قرض کی مدمیں ملنے والی بھیک سے کیا چلتا ہے؟ تاریخ گواہ ہے کہ ان قرضوں سے نہ پہلے غریبوں کو کوئی ایک پیسہ ملانہ اب اورنہ آئندہ ملنے کا کوئی امکان ہے۔ ان قرضوں کے بدلے تو الٹا پھر غریبوں کوہی لوٹا جاتا ہے۔
ادھر آئی ایم ایف سے بھیک کی کوئی قسط جاری ہوتی ہے۔ ادھر غریبوں کے گیس اور بجلی کے بلوں میں نہ جانے کون کون سے نئے ٹیکسز جنم لینا شروع کر دیتے ہیں۔ پتہ نہیں آئی ایم ایف اور دوسرے ممالک کے یہ قرضے کس کے پیٹ اور جہنم میں جاتے ہیں؟ بجلی اور گیس کے بلوں میں یہ باقی بے شمارقسم کے ٹیکسز کیا کم تھے کہ فکسڈ چارجز کے نام پر عوام کی چمڑی ادھیڑ نے کا نیا کام شروع کر دیا گیا۔ کوئی بڑا سے بڑا حساب دان ہی کیوں نہ ہو ہمارے یہ بجلی اور گیس کے بل دیکھ کروہ بھی سرپکڑ کے بیٹھ جاتاہے۔
معلوم نہیں یہ بل ڈیزائن کرنے اور یہ فامولے بنانے والے نمونے اس غریب ملک میں کہاں سے آئے؟ گیس اور بجلی کے بل ہاتھ میں اٹھاتے ہی اچھے بھلوں کا بلڈپریشر بھی ہائی ہو جاتا ہے۔ کوئی مانیں یانہ لیکن اس ملک کاغریب اس وقت بہت مشکل سے زندگی جی رہا ہے۔ لوگوں کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں اوپر سے مہنگائی، غربت اور بھاری بلوں کے ذریعے ان پر جو ڈرون گرائے جا رہے ہیں وہ ان کے وس اور بس سے باہر ہے۔ غربت کے سائے تلے شب و روز گزارنے والوں کوجب انسان قریب سے دیکھتا ہے تو پھر غربت کی سمجھ آتی ہے۔
اس ملک میں غربت بہت سوں کوکھا گئی ہے اور مقام افسوس یہ ہے کہ اب بھی ہزاروں نہیں لاکھوں کو اندر اندر سے کھائے جا رہی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کواس غریب قوم پر زیادہ نہیں تو تھوڑا رحم ضرور کرنا چاہئیے۔ موجودہ حالات نے غریبوں سے جینے کی آس اور امید ہی چھین لی ہے۔ یہ حالات اور اس طرح کے بھاری بل اگر رہے تو پھر یہ بل تو رہیں گے لیکن غریب؟ غریب نہیں رہے گا۔ غریب زندہ ہی روٹی کے خشک نوالے پرہے اگرآپ اس سے وہ نوالہ بھی چھینیں گے تو پھر وہ زندہ کیسے رہے گا؟ ہمارے لیڈر اور سیاستدان اس وقت انتخابات کی گہماگہمیوں اور سیاسی رنگینیوں میں مصروف ہیں۔
یہ سیاست سیاست لازمی کریں لیکن ساتھ ان غریبوں کو بھی ضرور یاد رکھیں۔ یہ غریب عوام اس ملک میں ہوں گے تو ہمارے ان لیڈروں اور سیاستدانوں کی سیاست چلے گی۔ دعا ہے کہ ان انتخابات میں عوام کاایساکوئی ہمدرد اور غمخوار کامیاب ہو کہ جو اور کچھ کریں یا نہ۔ لیکن کم ازکم ان غریبوں کی مہنگائی، غربت، بیروزگاری اور ان بھاری بلوں سے جان تو چھڑا دیں۔