مبارک ثانی کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے نے ہرکلمہ گومسلمان کوتشویش میں مبتلاکردیاہے، اس فیصلے پرنہ صرف ملک کے تمام مکاتب فکرکے علماء ومشائح بلکہ عام مسلمان بھی تکلیف وپریشانی سے گزررہے ہیں۔ ہمارے جیسے ایک عام اورگنہگارمسلمان کے لئے بھی حضورﷺکی ذات اقدس اورختم نبوت سے آگے کچھ نہیں۔
مسلمان مسلمان ہی تب کہلاتاہے جب اس کی جان، مال اوراولادسب حضورﷺکی محبت، عشق اورختم نبوت پرقربان ہوں۔ عشق رسول کے بغیرتومسلمان ہونے کاسوال ہی پیدانہیں ہوتا۔ جس دل میں اللہ کے آخری رسول اورپیغمبر سے عشق ومحبت نہ ہواس دل اوردل والے کامومن ومسلمان ہوناممکن ہی نہیں۔ مومن اورمسلمان ہونے کے لئے اللہ کی وحدانیت کے ساتھ پہلی شرط ہی آقائے نامدارحضرت محمدمصطفیﷺ کواللہ کاآخری رسول اورنبی مانناہے۔ خودحضورنبی کریم ﷺنے فرمایاکہ میں آخری نبی ہوں اورمیرے بعدکوئی نبی نہیں۔ جولوگ ختم نبوت کے منکرہیں ایسے لوگ اسلام کیا؟
اس ملک کے آئین وقانون کے مطابق بھی کافرہیں۔ قادیانیوں کی محبت میں پاگل ہوکرجولوگ قادیانیوں کے حقوق کی بات یاواویلاکررہے ہیں وہ قادیانیوں کی محبت میں مردارہونے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جولوگ نہ مسلمان ہیں اورنہ جن کااسلام سے کوئی تعلق ہے ایسے لوگوں کوکلمہ طیبہ کے نام پربننے والے ملک میں مسلمانوں کے حقوق کیوں اورکیسے دیئے جاسکتے ہیں؟ قادیانی اپنے آپ کوکافرمانیں پھراگران کواس ملک میں غیرمسلموں والے حقوق نہ ملیں توان کے یہ پٹوبات کریں۔ چوری اوپرسے سینہ زوری۔
یہ کیابات ہوئی کہ ایک طرف ختم نبوت کاانکاراورمسلمانوں کی دل آزاری ہواوپرسے کہیں کہ ایسوں کوسرپربٹھائیں۔ منکرین ختم نبوت کوسرپربٹھایانہیں جاتاایسوں بدبختوں اوررذیلوں کو سولی پرچڑھایاجاتاہے۔ مبارک ثانی کیس کے فیصلے پرنظرثانی ہویانہ؟ پرایک بات اورحقیقت اٹل ہے کہ منکرین ختم نبوت کے بارے میں اسلام اورمسلمانوں کاجوفیصلہ ہے ایک نہیں اس طرح کے ہزارمبارک ثانی کیسوں کے فیصلے بھی آئیں توبھی ختم نبوت کے معاملے اورفیصلے پرتاقیامت کوئی نظرثانی نہیں ہوسکتی۔ مسلمان کٹ سکتے ہیں، آگ میں جل سکتے ہیں، مرسکتے ہیں لیکن ختم نبوت کے معاملے پریہ کوئی کمپرومائزنہیں کرسکتے، حضورﷺسے عشق اورناموس رسالت پرجان، مال اوراولادسمیت سب کچھ قربان کرنایہ ہرمسلمان کی پہلی اورآخری خواہش وتمناہے۔
قادیانی کیا؟ اس سے پہلے جس جس نے بھی ختم نبوت کاانکارکیا۔ مسلمان ان کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیواربن کرکھڑے ہوئے۔ قادیانیوں کے خلاف آج امت کااتحادواتفاق یہ کوئی نئی بات نہیں۔ منکرین ختم نبوت کے مقابلے میں مسلمان ہمیشہ ایک ہی رہے ہیں۔ غازی علم الدین شہیداورعامرچیمہ شہیدجیسے عاشقان رسول ہردورمیں ناموس رسالت اورتحفظ ختم نبوت کے لئے تیاربیٹھے رہتے ہیں۔
تحفظ ختم نبوت کاانتہائی حساس ونازک معاملہ بھی ہم علماء اورمشائح کامسئلہ سمجھتے ہیں لیکن آقائے دوجہاں ﷺکے ناموس پرجان قربان کرنے والے غازی علم الدین نہ عالم تھے نہ مفتی اورنہ سیاستدان ونہ کوئی حکمران۔ عامرچیمہ بھی ہمارے جیسے ایک عام مسلمان تھے، پھرمسیلمہ کذاب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کراس کذاب کوللکارنے والے صحابی بھی ایک چھابڑی فروش تھے کوئی عالم اورمفتی نہیں۔
مسیلمہ کذاب نے نبی اکرم ﷺ کو خط لکھاکہ میرے ساتھ ایک معاہدہ کر لیں، جب تک آپ حیات ظاہری میں ہیں، آپ نبی ہیں، جب آپ کا وصال ہوجائے تو میں نبی" یا یہ معاہدہ کر لیں کہ آدھے عرب کے آپ نبی اورآدھے عرب کا میں نبی" معاذاللہ۔ اس کے خط پر نبی پاک ﷺ نے جواب میں لکھا۔ "میں تو اللہ کا رسول ہوں جب کہ تو کذاب ہے، جھوٹا ہے۔ جب نبی پاک ﷺنے خط میں کذاب لکھا تو فرمانے لگے۔ کون لے کر جائے گا یہ خط اس کذاب کے دربار میں۔ یہ خط اب اس کے دربارمیں لے کرجاناہے جس کے آگے بھی بندے اور پیچھے بھی بندے ہیں، حالات بڑے خطرناک ہیں۔ جان کا خطرہ بھی ہے۔
ایک صحابی تھے چھابڑی فروش جو سر پر ٹوکرا رکھ کے مدینے کی گلیوں میں کجھوریں بیچتے تھے۔ گیارہ بارہ بچوں کے باپ تھے جسمانی طور پر بھی کمزور تھے، کجھور کھا رہے تھے جلدی سے اٹھے ہاتھ کھڑا کرکے کہا۔ حضور کسی اور کی ڈیوٹی نہ لگائیے گااس کذاب کے پاس میں جاؤں گا۔ اس صحابی نے جب یہ الفاظ جلد بازی میں کہے تو ان کے منہ سے کجھور کے کچھ ٹکڑے مجلس میں بیٹھے صحابہ کرام کے چہروں پر گرے، ایک صحابی کہنے لگے۔ اللہ کے بندے پہلے کھجور تو کھا لے۔ بڑی جلدی ہے تجھے بولنے کی۔ وہ مسکرا کر کہنے لگے۔ اگر کھاتے کھاتے ڈیوٹی کسی اور کی لگ گئی تومیں کیا کروں گا، اس لئے مجھے جلدی ہے۔ حضورﷺ نے اس صحابی کواپنا نیزہ دیا، گھوڑا دیااور فرمایا ذرا ڈٹ کے جانا اس کذاب کے گھر۔ وہ صحابی عقیدت سے نظریں جھکا کر کہنے لگے۔ محبوب خدا۔ آپ فکر ہی نہ کریں۔
صحابہ کہتے ہیں وہ اس طرح نکلے جیسے کوئی جرنیل نکلتا ہے، وہاں سے نکلتے ہی ان کاانداز ہی بدل گیا ان کے طور طریقے بدل گئے۔ وہ یوں نکلے جیسے کوئی بڑا دلیر آدمی جاتا ہے۔ وہ صحابی مسیلمہ کذاب کے دربار میں گئے۔ وہاں ایک شخص جو بعد میں مسلمان ہوا وہ بتلاتا ہے۔ وہ صحابی جن کا نام" حضرت حبیب بن زید " تھا جب وہاں دربار میں پہنچے تو اپنا نیزہ زور سے دربار میں گاڑھ دیا۔ مسیلمہ ٹھٹک کے کہتا ہے، کون ہے تو؟ اس نے غراتے ہوئے کہا۔ تجھے چہرہ دیکھ کر پتہ نہیں چلا کہ میں رسول اللہﷺ کا نوکر ہوں۔ ہمارے تو چہرے بتاتے ہیں کہ نبیﷺ والے ہیں، تجھے پتہ نہیں چلا میں کون ہوں۔
مسیلمہ کہنے لگا۔ کیسے آئے ہو؟ بے نیازی سے فرمایا۔ یہ تیرے خط کا جواب لے کے آیا ہوں۔ بادشاہوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ خط خود نہیں پڑھتے تھے بلکہ ساتھ ایک بندہ کھڑا ہوتا تھا وہ خط پڑھتا تھا تو مسیلمہ نے خط اس کو دیا کہ " پڑھو " جب اس نے خط پڑھا تو اس میں یہ بھی لکھا تھا " تو کذاب ہے" یہ جملہ وہاں موجود سب نے سن لیا۔ اکیلے میں ہوتا تو بات اور تھی، وہ آگ بگولہ ہوگیا، آنکھیں ان کی سرخ ہوگئیں، سامنے حضرت حبیبؓ بن زید تن تنہاء کھڑے تھے، مسیلمہ کذاب غصے سے تلوار لے کراٹھا اور کہنے لگا۔ تیرے نبی نے مجھے" کذاب " کہا ہے تیرا کیا خیال ہے؟
حبیب بن زید مسکرا کر فرمانے لگے۔ خیال والی بات ہی کوئی نہیں۔ جسے میرا نبی کذاب کہے وہ ہوتا ہی کذاب ہے۔ تو سات سمندروں کا پانی بھی بہا دے تو بھی تیرا جھوٹ نہیں دھل سکتا۔ یہی حال آج قادیانیوں کابھی ہے، یہ کذاب اورکافرہیں۔ مبارک ثانی کیس کافیصلہ کیا؟ اس طرح کے ہزاروں ولاکھوں فیصلے اوریہ خوداپنے اوپرسات سمندروں کا پانی بھی کیوں نہ بہا دیں تو بھی ان کاجھوٹ، دجل اورفریب دنیاسے نہیں چھپ سکتا۔ جس نے بھی ہمارے پیارے نبی ﷺکے ختم نبوت کاانکارکیاوہ دونوں جہانوں میں ذلیل ورسواہوئے۔ ختم نبوت یہ مسلمانوں کے ایمان کامسئلہ ہے۔
ہماری عدالتوں اورہمارے معززججوں کوایسے نازک مسائل سے دوررہناچاہئیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی مبارک ثانی کیس کے فیصلے پرتحفظات کااظہارکیاہے۔ اس فیصلے پرملک کے نامورعلمائے کرام کی جانب سے تشویش یہ کوئی عام اورمعمولی بات نہیں، اعلیٰ عدلیہ کواپنے اس فیصلے پرایک بارپھرنظرثانی کرکے مسلمانوں میں پائی جانے والی بے چینی اورتشویش کاخاتمہ کرناچاہئیے۔ ایک بات یادرہے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں لیکن یہ ناموس رسالت اورتحفظ ختم نبوت کے معاملے میں کچھ بھی برداشت کرنے کے لئے تیارنہیں کیونکہ ہمارے جیسے گناہ گاروں کے دامن میں، عشق رسولﷺ، ہی توہماراسب کچھ ہے۔