گزرے مہینے کسی کام کے سلسلے میں ایک دوست کے ساتھ گیس دفتر جانا ہوا تو وہاں ہر کیبن میں لگے گیس ہیٹرز کو انگاروں کی طرح سرخ اورجلتے دیکھ کر ہمارے توہوش ہی اڑگئے۔ گیس کے بھاری بلوں کی وجہ سے اس زمانے میں جس ہیٹرکولوگ ہاتھ لگانابھی گناہ سمجھ رہے ہیں۔ اس دفتریا محل میں وہ ہیٹرزپوری آب وتاب کے ساتھ جل رہے تھے، ہردوصاحبان کے آگے ایک ایک ہیٹرکوتپش وحرارت سے چیختے وچلاتے دیکھ کرہمیں مرحوم سعادت حسن منٹوصاحب سے منسوب عقل، دماغ اور آنکھیں کھولنے والی کچھ باتیں یاد آ گئیں۔
منٹوصاحب کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ وہ شدید گرمی کے مہینے میں ایک بارکہیں ہیرا منڈی چلے گئے۔ جس گھر میں منٹوصاحب گئے وہاں کی نائیکہ 2 عدد ونڈو ائیر کنڈیشنرز چلا کر اپنے اوپر رضائی اوڑھ کر سردی سے کپکپا رہی تھی۔ منٹوصاحب نے کہا کہ میڈم دو اے سی چل رہے ہیں آپ کو سردی بھی لگ رہی ہے آپ ایک بند کر دیں تا کہ آپ کا بل بھی کم آئے تو وہ نائیکہ مسکرا کر بولی کہ "اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے"۔ منٹو صاحب کہتے ہیں۔۔ کافی سال گزر گئے اور مجھے گوجرانوالہ اسسٹنٹ کمشنر کے پاس کسی کام کے لیے جانا پڑ گیا شدید گرمی کا موسم تھا، صاحب جی شدید گرمی میں بھی پینٹ کوٹ پہنے بیٹھے ہوئے تھے اور 2 ونڈو ائیر کنڈیشنزفل آب و تاب کے ساتھ چل رہے تھے اور صاحب کو سردی بھی محسوس ہو رہی تھی۔
میں نے کہا کہ جناب ایک اے۔ سی بند کر دیں تاکہ بل کم آئے تو صاحب بہادر بولے" اساں کیہڑا اے بل اپنی جیب وچوں دینا اے"منٹو فرماتے ہیں کہ میرا ذہن فوراً اسی محلہ کی نائیکہ کی طرف چلا گیا کہ دونوں کے مکالمے اور سوچ ایک ہی جیسی تھی، تب میں پورا معاملہ سمجھ گیا۔ یعنی اس ملک کے تمام ادارے ایسی ہی نائیکہ سوچ رکھنے والے افراد کے ہاتھوں میں ہیں۔ غریب لوگ بھاری بلوں کی وجہ سے دوکیا؟ پورے گھرمیں ایک ہیٹراورایک عام ساپنکھاتک نہیں چلاسکتے لیکن سرکاری دفاتر، ریسٹ ہاؤسز اورفارمزمیں ایک ایک افسراس نائیکہ کی طرح دودوہیٹراوراے سی چلاکراس ملک وقوم کی غربت کامذاق اڑا رہے ہیں۔
بات نائیکہ کی ہویااس اسسٹنٹ کمشنرکی وزن دونوں میں ہے۔ نائیکہ کے کوٹھے اورسرکارکی کوٹھی میں ہیٹر اور اے سی دوچلے یاتین اورچار؟ بل کونسا نائیکہ یابادشاہ سلامت نے دیناہے۔ سرکاری کوٹھیوں میں پوری آب وتاب کے ساتھ ہیٹرجلتے اورائیرکنڈیشن چلتے ہیں توہی بیس تیس ہزارماہانہ تنخواہ لینے والے غریبوں پرچالیس اورپچاس ہزاربل آتے ہیں۔ وقت کے ان بادشاہوں کوپتہ ہے کہ یہ دوہیٹرجلائیں یاتین اورچارائیرکنڈیشن چلائیں بل پھربھی غریب عوام نے ہی دینے ہیں۔ اس لئے یہ لوگ ہیٹر جلانے اوراے سی چلانے میں بخل سے کام نہیں لیتے۔
جس دن سرکارکی ان کوٹھیوں، محلوں اور دفتروں میں جلنے والے ہیٹراورچلنے والے ائیرکنڈیشن کے بل ان افسروں وبادشاہوں کی جیبوں سے نکلنے لگے اس دن آپ دیکھیں گے کہ سرکارکی ان کوٹھیوں میں بھی پھر دواورتین نہیں بلکہ ایک ہیٹر جلانے اوراے سی چلانے سے پہلے سو نہیں ہزاربارسوچاجائے گا۔ یہ ملک مقروض اورقوم غریب ہی اس وجہ سے ہے کہ یہاں مال سرکارکومال ہی نہیں سمجھاجارہا۔ مال مفت دل بے رحم۔ یہاں ایم این اے، ایم پی اے اور وزیرو مشیرہیں یااٹھارہ وبیس گریڈکے آفیسر۔ اکثر ہیرامنڈی کی اس نائیکہ جیسی سوچ لیکر وقت پاس کررہے ہیں۔
جس دن وزیراورمشیرسے لیکر ایک عام افسرتک سب اس سوچ سے نکل کرملک وقوم کے فائدے کواپنافائدہ اورنقصان کواپنانقصان سمجھنے لگیں اس دن یہ ملک نہ پھرکسی کامقروض رہے گااورنہ ہی یہاں کے عوام اورقوم کوئی غریب رہے گی۔ عوام کی غربت کی اصل کہانی ہی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں ہمارے افسروں، سیاستدانوں اور حکمرانوں کی عیاشیاں اورمستیاں ختم ہوتی ہیں۔ ہمارے افسران، سیاستدان اور حکمران اگر ملک و قوم پرتھوڑاسابھی رحم کرکے یہ نائیکہ والی سوچ دل ودماغ سے نکال دیں تووہ دن دورنہیں کہ جب اس ملک میں پھر ہر طرف ہریالی اور خوشحالی ہو۔
ایک افسر، سیاستدان اور حکمران عوام کے خون پسینے کی کمائی پر مزے، عیاشیاں اورمستیاں توایک یاکچھ دن ہی کرتے ہیں لیکن اس وقتی عیاشی اورموج مستی کی قیمت پھرسالوں تک ملک وقوم کوبھگتنی پڑتی ہے۔ اپنابوجھ انسان کسی نہ کسی طرح اٹھالیتاہے لیکن مسئلہ تب خراب ہوتاہے جب دوسروں کابوجھ بھی مفت میں کندھوں پرآن گرتاہے۔ ہم نے کونسابل دینا ہے؟ یہ کہنے اورسوچنے والے افسروں، سیاستدانوں اورحکمرانوں کے گناہ جب عام اور غریب لوگوں کے کندھوں پرپڑتے ہیں تو پھر بہت سارے غریب جینے کے قابل نہیں رہتے۔
اس ملک میں بہت سارے افسران، سیاستدان اورحکمران اللہ سے ڈرنے والے بھی ہیں جو ملک وقوم کے نقصان کواپناذاتی نقصان سمجھتے ہیں مگر افسوس یہاں بہت سے ایسے بھی ہیں جو دو دو ہیٹروں اورائیرکنڈیشنزمیں سگریٹ کاکش لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم نے کونسابل دینا ہے؟ ایسوں کے ہاتھ نہ ہیٹر، نہ ائیرکنڈیشن، نہ گاڑی، نہ پٹرول اورنہ کمیشن پررکتے ہیں اورنہ ہی پھرکرپشن پر۔ ایسوں کی وجہ سے پھر پوری قوم کوعذاب اورامتحان سے گزرنا پڑتا ہے۔
ہم اگرنائیکہ والی سوچ سے نکل کراس ملک اورقوم کی ترقی اورخوشحالی کے بارے میں سوچتے توآج اخلاقی، تعلیمی اورمعاشی میدان میں ہمارابھی کسی کے ساتھ مقابلہ ہوتا؟ بحیثیت قوم ہم سب ایک ونیک ہوں گے، ہم میں بہت سی خوبیاں ہوں گی لیکن نائیکہ سوچ والی ایک خامی ہماری تمام تر خوبیوں پربھاری بہت بھاری ہے۔ اسی ایک سوچ کی وجہ سے 75سال سے ہم ترقی اورخوشحالی سے دور ہوتے جارہے ہیں۔
آج بھی اگرٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ دیکھا اور سوچا جائے توآج بھی یہی ایک سوچ ہماری مجموعی قومی ترقی اورخوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ہمارے افسران، سیاستدان، لیڈران اور حکمران جب تک نائیکہ والی سوچ سے نہیں نکلتے تب تک اس ملک اورقوم کاکچھ نہیں ہوسکتا۔