یہ تو قانون فطرت ہے کہ ہر مشکل، دکھ، درد، تکلیف اورپریشانی کے بعدراحت، سکون اورآسانی بھی ہے۔ موسم اور اوقات توبدلتے رہتے ہیں۔ کبھی خوشی اورکبھی غم یہ توانسانی زندگی کاایک حصہ ہے۔ ایساتواس دنیامیں کوئی انسان نہیں آیاجس کی زندگی دکھ، درد، تکلیف اور پریشانیوں ومشکل سے ہٹ کرگزری ہو۔
مشکل اوقات اورکڑے لمحات ہرکسی پر آتے ہیں بات صرف یہ ہے وقت بدلنے اور مشکل گزرنے میں کچھ ٹائم لگ جاتا ہے۔ جلد ہو یا بدیر وقت بدل اورٹائم توہرحال میں گزرہی جاتاہے چاہے اچھاہویابرا۔ اسی لئے توکہاجاتاہے کہ وقت کبھی ایک سانہیں رہتا۔ غالب نے بھی تو کہا تھا کہ۔ گزرجائے گایہ دوربھی غالب ذرہ اطمینان تورکھ۔۔ جب خوشی نہ ٹھہرسکی توغم کی کیااوقات ہے۔ 2018سے پہلے والے حالات اگرنہ ٹھہرسکے تودوہزاراٹھارہ کے بعدوالے حالات کی کیامجال کہ یہ ایسے ہی رہیں گے۔
وہ جن کو2018سے پہلے والے حالات بدلنے کاکچھ زیادہ شوق تھاان کاتبدیلی والاکیڑابھی تو اب مرچکا۔ کوئی مانیں یانہ لیکن سچ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی قربانیوں اوروزیراعظم شہبازشریف کی کوششوں سے حالات اب بدلنے لگے ہیں۔ تبدیلی والی ہواسے جس مہنگائی نے ایک سواسی کی رفتاراورسپیڈپکڑی تھی آہستہ آہستہ اس مہنگائی کی رفتاربھی اب کم ہونے لگی ہے۔ امیدہے کہ اگرتبدیلی والے کیڑے نے اب دوبارہ سرنہیں اٹھایاتو حالات اگر2018سے پہلے والی جگہ پرنہ بھی آئے تو انشاء اللہ کم ازکم اس کے قریب قریب ضرورآئیں گے۔
اس ملک میں مہنگائی اوراشیائے ضروریہ کی قیمتوں کوہوادے کرآسمان تک پہنچاناپی ٹی آئی والے جیسے حکمرانوں کی ایک انگلی کاکام ہوتاہے لیکن مہنگائی کوپھرکم کرنااورقیمتوں کوواپس لانایہ کوئی آسان نہیں۔ دوہزار اٹھارہ کے بعدآٹا، چینی، گھی اورچاول سمیت دیگراشیاء کی قیمتوں میں جس طرح اضافہ ہوااس نے عام آدمی سے جینے کاحق تک چھین لیاتھا۔ آٹے کے بیس کلوتھیلے کی قیمت تین ہزارروپے سے تجاوزکرگئی
تھی۔ سیاستدانوں میں ہماراکوئی فیورٹ نہیں، ہمیں توسیاستدان اورحکمران بس وہی اچھے لگتے ہیں جوملک وقوم کودلدل میں دھکیلنے کے بجائے عوام کوجوہڑسے نکالنے کی کوئی تدبیرکریں۔ جن کے آنے کے ساتھ ہی مہنگائی آسمان سے باتیں کرنے لگیں، سات سوکاآٹاتیرہ سواورپچپن روپے کی کلوچینی ایک سوبیس کی ہوتوایسے سیاستدان اورحکمران پھرکس کواچھے اوربھلے لگتے ہیں۔ اس ملک کے عوام انہی سیاستدانوں اورحکمرانوں کودعائیں دیتے ہیں جواپنے پاؤگوشت کے لئے ان کی بھینس ذبح نہیں کرتے۔
شہبازشریف اچھے ہیں یابرے، کرپٹ ہیں یاعمران خان کی طرح ایک نمبرکاایمانداراس کاہمیں نہیں پتہ لیکن اتناضرورجانتے ہیں کہ شہبازشریف بطورحکمران اس وقت جوکچھ کررہے ہیں وہ عوام کے زخموں پرمرہم رکھنے سے بھی بڑھ کرہے۔ پچھلے پانچ چھ سال سے حالات جس نہج اورراستے پرچل نکلے تھے، مہنگائی، غربت اور بیروزگاری سمیت دیگر زمینی آفات کی بڑھوتری اگراسی طرح جاری رہتی تواس ملک میں غریب عوام کے لئے زندہ رہنامزیدمشکل ہو جاتا۔
آٹا، گھی اور چاول سمیت دیگراشیاء کی قیمتوں میں کمی کرکے مہنگائی کے آگے بندباندھنے کی کوششوں کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ غریب عوام نے پانچ چھ سال میں مہنگائی کے بہت بوجھ اٹھائے ہیں اب ان غریبوں کے کندھوں میں مزیدکسی بوجھ کواٹھانے کی ہمت اورطاقت نہیں۔ عوام وزیراعظم شہباز شریف اور صدرآصف زرداری کی طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتمادکے بعد شہباز، زرداری اورمولانا کی قیادت میں بننے والی حکومت نے بھی عوام کوبہت مایوس کیاتھاکیونکہ اس حکومت میں بھی عوام کوکوئی خاطرخواہ ریلیف نہیں مل سکاتھااوراسی وجہ سے پھرعام انتخابات میں مسلم لیگ ن کواس کی بھاری قیمت چکانا پڑی اوریہ بات شہبازشریف پہلے کہہ بھی چکے تھے کہ ہم نے سیاست کے بجائے ریاست کوبچالیاہے اورحقیقت میں ایساہی تھااس وقت اگرشہبازشریف پی ٹی آئی حکومت کے گناہوں کوسامنے رکھ کروزارت عظمیٰ سے ہاتھ کھینچ لیتے تون لیگ کی سیاست توشائدکہ بچ جاتی لیکن ملک دیوالیہ پن سے شائدنہیں یقیناً نہ بچتا کیونکہ پی ٹی آئی نے چندسال میں ملک کوجس نہج تک پہنچادیاتھااسے کسی عام بندے کے لئے واپس لانااتناآسان نہ تھا۔
شریف برادران اورمریم نوازسمیت ن لیگ میں ایک نہیں ہزاروں خامیاں اورغلطیاں ہوں گی لیکن مسلم لیگ ن کی یہ ایک خوبی جولیگی بڑوں نے سیاست پرریاست کوترجیح دیکر کی یہ ان ہزاروں خامیوں اورغلطیوں پربھی بھاری ہے۔ تحریک عدم اعتمادکے بعداگرن لیگ پی ڈی ایم حکومت کاحصہ نہ بنتی توشائدکہ میاں نوازشریف چوتھی بار وزیراعظم بن جاتے کیونکہ کپتان سے عوام ویسے مایوس ہوچکے تھے اس صورت میں ان کے پاس نوازشریف سے بہترآپشن اور کوئی نہیں تھا۔
یہ تووہ پی ڈی ایم حکومت کی شکل میں گناہوں کی ٹھوکری سرپراٹھانے کی وجہ سے کپتان کے لئے لوگوں کی ہمدردیاں پھرسے جاگنے لگیں نہیں توکپتان کی سیاست کاکام توتقریباًانہی برسوں میں تمام ہوگیاتھا۔ خیر۔ نوازشریف نہ سہی شہبازشریف تواس وقت حکمران ہیں نا۔ وزیراعظم شہبازشریف کواس وقت اپنی تمام ترتوجہ غریب عوام پرمرکوزرکھنی چاہئے۔ یہ عوام کچھ سال سے بڑے ڈسے ہوئے اورمارے ہوئے ہیں۔
پیپلزپارٹی کاایک نعرہ ہوتا تھا روٹی، کپڑا اور مکان۔ ان عوام کواس وقت روٹی، کپڑے اورمکان کی ہی ضرورت ہے۔ انہیں کوئی وزارت اورکوئی عہدہ نہیں چاہئے، انہیں رائیونڈ، بنی گالہ اورلاڑکانہ میں کوئی بڑامحل بھی نہیں چاہئے۔ اس قوم کودووقت کاکھانا، بدن ڈھانپنے کے لئے کپڑا اور سرچھپانے کے لئے چھت کاسایہ چاہئے۔ ایک کروڑنوکریاں اورپچاس لاکھ گھر دینے والے مداری توان سے ہاتھ کرگئے لیکن شریف توکسی کے ساتھ ہاتھ نہیں کرتے۔ اس لئے امیدہے کہ وزیراعظم شہباز شریف میاں صاحب کے نقش قدم پرچل کرعوام کی امیداورتوقعات پرپورااتریں گے۔