آئی ایم ایف کوخط لکھنے سے کپتان اورپی ٹی آئی کااصل چہرہ ایک بارپھربے نقاب ہوچکاہے، مخالفین ٹھیک کہتے ہیں کہ اس شخص اوراس کی پارٹی کونہ پہلے ملک وقوم کی کوئی فکرتھی اورنہ ہی اب انہیں معاشی مسائل اوربحرانوں میں گھرے ملک اورعوام کاکوئی خیال ہے۔
سیاست اگرپاکستان میں کرنی ہے توپھرآئی ایم ایف کوبیچ میں لانے کا کیا تک؟ وزارت عظمیٰ کی کرسی پانے کے لئے یہ پہلے خودآئی ایم ایف اوردورپارکی دیگرطاقتوں کونہ صرف اس خط کی طرح دہائیاں دیتے ہیں بلکہ ان کے پاؤں بھی پکڑتے ہیں لیکن جب اپنے کالے کرتوتوں کی وجہ سے کرسی ان پرالٹی ہوتی ہے توپھریہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اسے کبھی امریکہ اورکبھی اسرائیل کی سازش قراردے کرڈرامے شروع کردیتے ہیں۔ کل تک یہ کہہ رہے تھے کہ ان کی حکومت امریکی سازش کے ذریعے گرائی گئی، یہ کاعذ لہرالہرا کر سائفرساؤنڈکے ذریعے یوتھیوں کے جوش گرماتے رہے لیکن اب یہ انہی طاقتوں کوخطوط لکھ کراقتدارکے حصول کے لئے راہیں ہموارکرنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں۔
ہم سمجھ رہے تھے کہ اتنی ٹھوکریں اورلاتیں لگنے کے بعدان کوتھوڑی بہت عقل آگئی ہوگی لیکن آئی ایم ایف کے نام اس محبت نامے کے قصے، کہانیاں اورگونج کودیکھ کرلگتاہے کہ عقل نام کی کوئی شے بھی ابھی تک ان کے قریب سے نہیں گزری ہے۔ ان میں اگرعقل ہوتی توکیا؟ ان کایہ انجام ہوتا۔ ہم پہلے بھی کہتے رہے ہیں اوراب بھی کہتے ہیں کہ کرسی اوراقتدارکے لئے بندے کواتنابھی نہیں گرناچاہئیے کہ پھراٹھ ہی نہ سکے۔ ان کوایک باروہ بھی ان کے گناہوں، غلطیوں اورکوتاہیوں کی وجہ سے اقتدارسے ہٹایاگیاتوان کایہ حال ہوگیا۔
میاں نوازشریف سمیت کئی سیاستدانوں اورلیڈروں کوایک نہیں کئی باراقتدارسے محروم کیاگیالیکن اس کے باوجودانہوں نے نہ توآئی ایم ایف کوکوئی خط لکھانہ ہی ملک وقوم کے خلاف کسی اورسے کوئی مددطلب کی۔ آئی ایم ایف والے محبت نامے کوکپتان اوراس کے نادان کھلاڑی چاہے جوبھی نام دیں لیکن حق اورسچ یہی ہے کہ یہ خط سیاستدانوں اورلیڈروں کے نہیں بلکہ ملک وقوم کے خلاف ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب ملک کے معاشی حالات نہ صرف خراب بلکہ بہت خراب ہیں اوربچے بچے کوپتہ ہے کہ دیوالیہ سے بچنے کے لئے
آئی ایم ایف کے کڑوے گھونٹ پینے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں اوریہ بھی سب کوپتہ ہے کہ آئی ایم ایف کے کڑوے گھونٹ اگرہمارے حلق میں نیچے نہ اترے توہمارایہ نظام نہیں چل سکتا۔ اس حقیقت کو جاننے کے باوجودآئی ایم ایف کومحبت ناموں کے ذریعے اکسانے اورورغلانے کی کوشش نہایت افسوسناک ہے۔ ملک کے معاشی حالات کااگرپتہ نہ ہوپھرکوئی ایسی حرکت کرے توکوئی بات نہیں لیکن جب ایک شخص اوراس کے سیاسی گروہ کواچھی طرح معلوم ہوکہ ملک کے معاشی حالات کیاہیں پھروہ اس طرح کی حرکت کرے تویہ شرمناک ہے۔
کپتان اوران کے کھلاڑیوں کوبخوبی علم ہے کہ اس وقت ملک کے کیاحالات ہیں۔ انہوں نے توپہلے ملک کودیوالیہ کردیاتھاوہ تواللہ بھلاکرے سابق وزیراعظم شہبازشریف اورپی ڈی ایم کاکہ جنہوں نے ان کے گناہ اپنے سرلیکرادھرادھرسے کوششیں کرکے ملک کودیوالیہ ہونے سے بچایا۔ شہبازشریف اگراس وقت ان کے گناہ اوربوجھ اپنے کندھوں پرنہ اٹھاتے تویہ ملک وقوم کامزیدستیاناس کردیتے۔ جس عروج سے زوال اورتباہی کی طرف یہ ملک لیکرآئے آج تک ملک اس دلدل سے نہیں نکل سکاہے۔ ان کونہ صرف اندازہ بلکہ پکاٹکایقین ہے کہ موجودہ حالات میں یہ نہ ملک کوسنبھال سکتے ہیں اورنہ ہی نظام کوچلاسکتے ہیں۔ اسی وجہ سے توانتخابات میں اکثریت اکثریت کے نعرے لگانے کے بعدجب سچ میں ملک کانظام سنبھالنے کی بات آئی توان کے نعرے کیا؟ زبانیں بھی بندہوگئیں۔
ایک طرف توملک کانظام اورموجودہ بوجھ اٹھانے سے انہوں نے ہاتھ کھڑے کردیئے دوسری طرف نئی حکومت کے لئے انہوں نے ابھی سے مسائل ومصائب پیداکرنے کاکام شروع کردیاہے۔ مہنگائی، غربت اوربیروزگاری کے سائے میں شب وروزگزارنے والے 25کروڑعوام نے نئی حکومت سے بہت سی امیدیں اورتوقعات وابستہ کی ہیں۔ ملک کے ہرفرداورشخص کی یہ خواہش ہے کہ حکومت چاہے جوبھی ہویاجس کی بھی ہولیکن کم ازکم ملک وقوم کے لئے روشن مستقبل، ترقی اورخوشحالی کی نویدثابت ہو۔ یہ اگرپی ٹی آئی کی حکومت بنتی توتب بھی عوام نے اس کی کامیابی کے لئے دعائیں کرنی تھیں کیونکہ ایک کامیاب حکومت ہی روشن اورخوشحال ملک کی ضمانت ہوتی ہے۔ جہاں حکومتیں ہی ناکام ہوں وہاں ملک اورمعاشرے بھی پھرناکام ہوتے ہیں۔
ہرترقی یافتہ اورخوشحال ملک کے پیچھے کامیاب حکمرانوں اورلیڈروں کاہاتھ ہوتاہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں تمام لیڈراورسیاستدان انتخابات کے بعدہارجیت قبول کرکے ملک کی ترقی اورعوام کی خوشحالی کے لئے پھرنئی حکومت اور برسر اقتدار حکمرانوں کاساتھ دیتے ہیں لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں حکومت بننے سے پہلے ہی ہمارے لیڈراورسیاستدان آئی ایم ایف کوخطوط لکھنے کاسلسلہ شروع کردیتے ہیں۔ کپتان اوران کے کھلاڑی ملک کی بھلائی اورعوام کی خوشحالی کے لئے اگرکچھ نہیں کرسکتے توانہیں پھرملک وقوم کی برائی کے لئے بھی قدم اٹھانے سے گریزکرناچاہئیے۔
آج ان کویہ جوفکرجینے نہیں دے رہی کہ آئی ایم ایف سے ملنے والاقرض پھرواپس کون کرے گا؟ یہ فکراورخیال جب یہ خودقرض لینے کے لئے آئی ایم ایف کے پاؤں پکڑرہے تھے اس وقت کیوں نہیں آیا؟ اپنے دورمیں توانہوں نے قرضوں پرقرض لئے، کبھی ان کویہ خیال تک نہ آیاکہ یہ واپس کون کرے گالیکن اب ابھی حکومت بنی نہیں، آئی ایم ایف نے نئی حکومت کے لئے کوئی قسط جاری ہی نہیں کی ان کوابھی سے یہ خیال آنے شروع ہوگئے کہ یہ پیسے پھرواپس کون دے گا۔ کپتان اورکھلاڑی بے شک سیاست سیاست کھیلیں لیکن خداراملک وقوم سے نہ کھیلیں۔ یہ وقت نئی حکومت کے لئے مسائل پیداکرنے کانہیں بلکہ ملک وقوم کی ترقی کے لئے ساتھ چلنے کاہے۔
کپتان اگرعادت سے مجبورہوکرآنے والے حکمرانوں کی ٹانگیں کھینچیں گے تواس کانقصان مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی یاکسی اورجماعت وپارٹی کونہیں بلکہ ملک وقوم کوہوگا۔ جب بھی حکومتیں گرتی ہیں تواس کاسارانزلہ اوربوجھ پھرعوام پرپڑتاہے۔ یہ ملک مزیدکسی ایسے بحران کامتحمل نہیں جس کاڈائریکٹ نقصان ملک وقوم کوہو۔ اس لئے وزارت عظمیٰ کے چکرمیں کپتان ملک وقوم کاحال ومستقبل مشکل میں نہ ڈالیں ہاں اگرکپتان یاان کے کھلاڑیوں کے پاس آئی ایم ایف کے جال سے نکلنے کاکوئی شافی حل وعلاج موجودہے تووہ اسے قوم کے سامنے ضرورپیش کریں لیکن محض اقتدارکے چکرمیں اس طرح کے خطوط کے ذریعے قرض واپسی والے سوالوں کاڈھنڈوراپیٹنایہ نئی حکومت نہیں بلکہ اس ملک وقوم کے ساتھ زیادتی ہے۔