خواب تو سب ہی دیکھتے ہیں لیکن زیادہ تر اسے بھلا دیتے ہیں۔ معدودے چند ہی ہوتے ہیں جو اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ مولوی عبدالحق نے اپنے خوابوں کی تعبیر اپنے ہاتھوں سے کشید کی۔
انجمن کا بنیادی نصب العین اعلیٰ کتابوں کا ترجمہ کرانا اور ایک وقیع لائبریری کا قیام تھا۔ وہ ابتدا سے ہی اپنے اس خواب کی تعبیر پر اٹل رہے۔ اعلیٰ علمی اور تاریخی کتابوں کا ترجمہ کرانا ان کا شعار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ 1912 تک انھوں نے فلسفہ، تعلیم، القمر، القول الاظہر، رہ نمایاں ہند، نپولین اعظم، امرائے ہنود اور تاریخ تمدن (جلد اول) کے تراجم اپنے دور کے نہایت عالم و فاضل افراد سے کرائے اور اردو کے علمی سرمائے میں قرار واقعی اضافہ کیا۔
گزشتہ 100 برسوں کے دوران انجمن سے متعدد اعلیٰ اور معیاری کتابیں ترجمہ ہوئیں۔ اپریل 2019 میں نئی مجلس نظما کے منتخب ہونے کے بعد، کورونا 19 کی " عنایتوں " کے سبب کاموں میں قدرے تاخیر ہوئی۔ اس کے باوجود نئی مجلس نظما کی حتی المقدور کوششوں سے قومی زبان اور تحقیقی مجلہ "اردو" باقاعدگی سے شایع ہوتا رہا۔ مولوی عبدالحق نے جس علمی اور تحقیقی مجلے " اردو " کے آغاز کیا تھا اس کو 100 برس مکمل ہوگئے تھے۔
ہمارے یہاں کسی علمی مجلے کی اشاعت کو 100 برس پورے ہوجائیں تو یہ بہت خاص بات ہوتی ہے۔ انجمن کے صدر واجد جواد، خازن اور نگران ادبی، مدیر علمی و ادبی سید عابد رضوی، مجلہ "اردو" کے مدیر پروفیسر شاداب احسانی، " قومی زبان" کی مدیر ڈاکٹر یاسمین فاروقی اور اس خاکسار نے یہ طے کیا کہ مجلہ "اردو" کے100 برس مکمل ہونے پر اس خوشی میں اس کا صد سالہ جشن منایا جائے اور اسے مولوی عبدالحق کانفرنس کا نام دیا جائے۔ چنانچہ 27 اور 28 نومبر کو انجمن کی نئی دو منزلہ عمارت میں یہ کانفرنس منعقد ہوئی جس کا افتتاح مہمان خصوصی کراچی کے ایڈمنسٹیٹر بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے کیا۔
اس موقع پر لاہور سے آئے ہوئے ہمارے دانشور اور محقق ڈاکٹر نجیب جمال نے کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ "مولوی صاحب نے اردو کی خدمت سرسید کے طرز پرکی ہے۔ انھوں نے سرسید کی طرح کے ویژن پر کام کیا ہے۔ مولوی صاحب کی اردو کی خدمت اور ان کا ویژن قوم کو ایک سمت دیتا ہے۔ انجمن کا دفتر جب حیدرآباد (دکن) منتقل ہوا تو مولوی صاحب چند مخطوطات اور نوادرات لے کر گئے تھے۔ اس کے بعد آج جو انجمن کا کتب خانہ ہے وہ مولوی عبدالحق کی محنت کا نتیجہ ہے۔ انجمن کی بہت سی ایسی کتابیں ہیں جو صدیوں کا کلچر، ادب اور زبان کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ ان میں مولوی صاحب کی مرتب کردہ کتاب "کلیات قلی قطب شاہ" سرفہرست ہے جس میں 16 ویں صدی سے لے کر انیسویں صدی کے ادب کو یکجا کیا گیا ہے۔
صدر انجمن واجد جواد نے انجمن ترقی اردو کے قیام، مقاصد اور حالیہ سرگرمیوں سے متعلق حاضرین کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر میں سائنسی علوم کے جو فائدے ہیں وہ اردو زبان تک آجائیں۔ ہمارا ارادہ ہے کہ قومی زبانوں کی کتب کے تراجم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا جائے۔ نیز سائنسی کتب کے تراجم ہمارے منشورکا حصہ ہیں اور اس پر ہم خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں انجمن کی جانب سے شایع کردہ کتابوں کی تقریب رونمائی بھی کی گئی۔ کتابوں کا تعارف ڈاکٹر یاسمین سلطانہ فاروقی نے پیش کیا۔
معروف فکشن رائٹر اور " سب رنگ " کے بانی مدیر شکیل عادل زادہ نے اپنی گفتگو میں کہا کہ میں نے، جون ایلیا اور ان کے بھائی سید محمد عباس نے عالمی ڈائجسٹ "انشا " کے نام سے 59-60ء میں ایک پرچہ جاری کیا۔ جنوری 70ء میں "سب رنگ" کا اجرا ہوا جس میں ہم نے کافکا جیسے علامتی ادیب اور اس کے ساتھ روسی ادب بھی شایع کیا۔ ابتدائی طور پر "سب رنگ" کی اشاعت چار ہزار تھی جو بعد میں بڑھتے بڑھتے ڈھائی لاکھ تک جا پہنچی۔
مجلہ "اردو" کے مدیر پروفیسر شاداب احسانی نے مجلہ اردو کے سو برس، کے موضوع پر خطاب کیا۔ انھوں نے مجلہ اردو، کے اجرا اور اس کی دہلی اور بعد ازاں کراچی منتقلی کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ مجلہ اردوکا معیار ابتدا سے ہی اعلیٰ پائے کا ہے اور اس معیار کو برقرار رکھنے میں مولوی صاحب نے جس عرق ریزی سے کام لیا وہ کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ پورے ادارے کا کام تھا جو مولوی عبدالحق نے اکیلے ہی سرانجام دیا۔ انھوں نے مجلہ اردو، کے ابتدائی نمبروں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ مولوی عبدالحق نے اقبال نمبر شایع کیا تھا، جس کا ذکر بہت کم ہوتا ہے، ایسے اعلیٰ پائے کے رسائل بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس رسالے کے معیاری ہونے کی سند اس بات سے بھی دی جاسکتی ہے کہ وہ بعدازاں 1940 میں کتابی صورت میں انجمن سے شایع ہوا۔
اکادمی ادبیات کے صدر نشین ڈاکٹر محمد یوسف خشک نے " ادب کے فروغ میں اداروں کے کردار" کے حوالے سے گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں ایسے لوگ تلاش کرنے ہوں گے جو ادب کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر اور آئی ٹی سے بھی وابستہ ہوں۔ آیندہ برسوں میں وہی زبانیں زندہ رہ سکیں گی، جو مشینی ترجمے سے منسلک ہوں گی۔ اردو کا مستقبل اس وقت جتنا روشن ہے کسی اور زبان کا نہیں ہے اور یہ دنیا کی بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔
اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خشک نے کہا کہ مولوی عبدالحق نے جس وقت اردو کے لیے کام کیا وہ ناقابل فراموش ہے۔ دنیا بھر میں "اردو" زبان کا مستقبل جتنا روشن ہے کسی بھی زبان کا نہیں ہے۔ پاکستان میں اردو کی ترویج و ترقی کے لیے بہت سے ادارے قائم ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ یہ ادارے فعال ہیں یا نہیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ کوئی بھی زبان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی جب تک اس زبان کی سرپرستی سرکاری سطح پرنہ کی جائے۔ دنیا بھر میں انھی زبانوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے جس سے ذریعہ معاش جڑا ہو۔ بہت سے ماہرین کا ماننا ہے کہ 2100مکمل ہونے تک 3000 سے زائد زبانیں معدوم ہوجائیں گی۔
ملک کے سینئر صحافی، تجزیہ کار، شاعر اور مصنف محمود شام نے "ملکی ترقی میں قومی زبان کے کردار" پر روشنی ڈالی اور کہا کہ کمپیوٹرکتاب کے آغاز کے سلسلے میں جمیل مرزا کا کردار انتہائی اہم ہے، جنھوں نے ہزاروں الفاظ کو کمپیوٹر میں شامل کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ان پیج سوفٹ ویئر وجود میں آیا جو اب ہر جگہ استعمال ہورہا ہے۔ مختلف علاقوں کے لوگ ملک میں کہیں بھی کام کررہے ہوں۔ ان کا اپنے ہم وطنوں سے رابطہ قومی زبان میں ہی ہوتا ہے۔
جامعہ این ای ڈی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش حشمت لودھی نے " جامعات میں اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم کتنی ناگزیر ہے" پر اظہار خیال کیا۔ انھوں نے بتایا کہ اساتذہ انگریزی کے بجائے اردو کو بطور ذریعہ تعلیم اختیار کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ اساتذہ انگریزی میں کتابیں تو پڑھ لیتے ہیں لیکن انگریزی میں ٹھیک طرح سے تدریس نہیں کرپاتے۔ جتنی بھی ترقی یافتہ اقوام ہیں انھوں نے اپنی زبانوں میں پڑھ کر ہی ترقی کی ہے۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر عظمیٰ فرمان نے اپنے مقالے "بیرون ملک میں اردو کا فروغ: محرکات و امکانات" کے موضوع پر خطاب کیا۔ انھوں نے کہا کہ ماہرین کہتے ہیں کہ بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں ہونی چاہیے۔ مغربی ممالک میں حکومتیں اس کا بہت خیال رکھتی ہیں۔ خلیجی ممالک میں اردو بہت مقبول ہے افریقی ممالک کے طلبہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے پاکستان آتے ہیں تو وہ یہاں سے کچھ نہ کچھ اردو سیکھ کر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یورپ، امریکا، برطانیہ اور کینیڈا میں اردو مقبول ہے۔
(جاری ہے)