اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کی جانب سے ایک تحفہ وصول ہوا تو آنکھیں روشن ہوئیں۔ یہ ایک سیاہ پوش کتاب تھی جس پر زرد رنگ سے پھول بوٹیوں کی کڑھت تھی۔ ان کے زیر نگرانی کام کرنے والے سجاد پرویز نے وقتاً فوقتاً ملک کے 22لوگوں کے انٹرویو ریکارڈ کیے۔ انھیں سنبھال کر رکھا اور اب وہ ان مکالموں کو تحریری شکل میں سامنے لائے ہیں۔
ایک آراستہ و پیراستہ کتاب جسے دیکھ کر دل خوش ہوجائے اور اندازہ ہوکہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں کیسا باوقار اور بے مثال ادبی اور علمی کام ہو رہا ہے۔ سجاد پرویز نے یہ کام بہت چپکے چپکے کیا ہے۔ مثال کے طور پر مجھ کو لیجیے کہ میں نے جب اس میں اپنا نام دیکھا تو حیران رہ گئی۔ میں نے جب ان سے اپنے انٹرویو کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ میں کسی ادبی جشن میں موجود تھی، وہیں انھوں نے مجھ سے گفتگو ریکارڈ کی تھی۔
سجاد پرویز کے بارے میں ہماری معروف ڈرامہ نگار آمنہ مفتی نے خوب کہا ہے کہ "بات کہنے کا ڈھنگ تو شاید بہت سے لوگوں کو آتا ہو لیکن بات سننے اور اسے قرینے سے لکھنے کا فن کم ہی لوگوں کو عطا ہوتا ہے۔ سجاد پرویز صاحب نے نہ صرف اس عطا کو پہچانا بلکہ اسی پہ بس نہ کیا، اس صلاحیت کو صیقل کیا اور ایسی جلادی کہ آپ گفتگو کے یہ شاہ کار بس پڑھا ہی کریں۔"
اس کتاب کا پہلا انٹرویو آصف فرخی کا ہے۔ ان کے لیے حوالہ کا لفظ استعمال کرنا درست ہوگا۔ وہ کراچی کے بیٹے تھے اور ادب کے حوالے سے اس کا حق ادا کیا۔ انھوں نے اچھی کہانیاں لکھیں، بہت اچھا رسالہ نکالا۔ اردو اور سندھی کے درمیان پل کا کام کیا۔ امینہ سید صاحبہ کے اشتراک سے ادبی کتابوں کا جشن منایا جس کے بارے میں خود ان کا کہنا ہے کہ:
"پہلی دفعہ جب یہ پروگرام ہوا تو پہلے اس میں کوئی تقریباً ساڑھے چار پانچ ہزار افراد آئے تھے اور ہم لوگوں کو ایسا لگا تھا کہ یہ بہت بڑی تعداد ہے اور چھ سال میں یہ تعداد ستر ہزار تک پہنچ گئی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ جو لٹریچر فیسٹیول میں شریک ہوتے ہیں یہ لوگ کیا کرتے ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو کتابیں پڑھنے، ادیبوں سے ملنے، ان کے خیالات معلوم کرنے اور ادب کے بارے میں بات کرنے کے لیے آتے ہیں اور یہاں یہ دیکھا کہ بعض ادیبوں کی کتابوں سے لوگوں کو بہت دلچسپی پیدا ہوئی۔
لوگ آئے انھوں نے بہت ادیبوں کی باتیں سنیں تو اس سے مجھے یہ انداز ہوا کہ شاید ایسا نہیں ہے کہ لوگوں نے کتاب کلچر بالکل ختم کردیا ہے یا کتاب سے دلچسپی نہیں رہی بلکہ ہمارے ہاں اس طرح کے مواقع کم ہوگئے ہیں جیسا خود کراچی میں۔ ماضی میں میرے شہر کراچی میں ایسا کلچر موجود تھا کہ ادبی تقریبات اور مشاعرے بہت ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ سیمینار ہوتے تھے، ادبی مکالمے ہوتے تھے۔"
سجاد پرویز نے آصف نورانی کا انٹرویو کیا۔ آصف اردو والوں سے زیادہ انگریزی والوں یا ریڈیو پروگرام سننے والوں کے محبوب ہیں۔ ہندوستان کی فلمی دنیا کے بارے میں وہ گہرائی سے جانتے ہیں۔ آصف نورانی اب تک ہندوستان اور پاکستان سے تعلق رکھنے والی تقریباً تمام ہی معروف فلمی، سیاسی اور دیگر شخصیات کے انٹرویو کرچکے ہیں۔
اس شام جب میں نے اسلام آباد میں مارگلہ کے دامن میں مارگلہ کے ہم نام ہوٹل کے ایک پرسکون کمرے میں آصف نورانی سے غیر رسمی گفتگو کا آغاز کیا اور ان سے معروف فلمی شخصیات سے ان کی پہلی پہلی ملاقاتوں کا احوال جاننا چاہا تو فرطِ جذبات سے مغلوب ہوکر کہنے لگے کہ موسیقار اعظم "نوشاد" سے ملاقات میری زندگی کا یاد گار واقعہ ہے۔ وہ لکھنوی تہذیب کی نمایندہ شخصیت اور انتہائی ملنسار اور حقیقی معنوں میں ایک Legend تھے۔ آصف نورانی کا کہنا تھا کہ انھوں نے بہت سی فلمی شخصیات اور نامور فلمی ستاروں کے انٹرویوز کیے اور کئی ایک سے ان کے ذاتی تعلقات اور دوستانہ مراسم بھی رہے۔
وہ بتا رہے تھے کہ معروف موسیقار آنجہانی او پی نیئر سے ان کے تعلقات باپ بیٹے کے تعلقات جیسے تھے اور وہ ان سے بذریعہ فون مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔ اسی طرح شبانہ اعظمی اور جاوید اختر سے بھی ان کے ذاتی مراسم رہے۔" تمہاری امرتا " فیم فیروز خان کا شمار بھی ان کے دوستوں میں ہوتا ہے۔ کیفی اعظم، گلزار، دیو آنند، دلیپ کمار اور طلعت محمود سے بھی ان کی نشستیں رہیں۔ جس بات کا انھیں قلق ہے وہ یہ کہ وہ معروف شہنائی نواز استاد بسم اللہ خان، کلاسیکی موسیقار ولایت خان، بھیم سین جوشی، اداکارہ مدھو بالا، مینا کماری، نرگس، گلوکار لتا منگیشکر، شاعر شکیل بدایونی اور دیگر عظیم شخصیات سے ملاقات نہ کر پائے۔
اس کتاب میں بہاولپور یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب سے گفتگو بھی شامل ہے۔ اس کا ایک دلچسپ واقعہ وہ بتاتے ہیں۔" ایبٹ آباد میں جب میرے دادا ریلوے پبلک اسکول کے ڈپٹی ہیڈ ماسٹر تھے تو وہ کوئی خط پوسٹ کرنے ڈاک خانے گئے۔
جنرل اسلم بیگ صاحب اس وقت کاکول میں کیپٹن یا میجر کے عہدے پر فائز تھے تو انھوں نے جب میرے دادا کو ڈاک خانے میں دیکھا تو احتراماً ان کے پاؤں پکڑ لیے۔ عموماً اساتذہ اپنے شاگردوں کو نہیں پہچان پاتے کیوں کہ انھوں نے اپنے عرصہ ملازمت میں ہزاروں طلبا و طالبات کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا ہوتا ہے تو میرے دادا نے جنرل اسلم بیگ کو نہیں پہچانا اور ان سے پوچھا کہ کیا بات ہے؟ آپ کیوں مجھے اتنی عزت دے رہے ہیں؟ تو جنرل صاحب نے کہا کہ " سر میں آپ کا سابق طالب علم ہوں "۔ اس مختصر سے واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ پہلے کے لوگوں میں استاد کی کس قدر عزت تھی۔
22 لوگوں میں سے ایک ہمارے معروف و مشہور شاعر افتخار عارف بھی ہیں۔ ان کی گفتگو پڑھیے تو اس دور کی سیاسی اور سماجی صورت حال کا گیرائی و گہرائی سے اندازہ ہوتا ہے۔ کسوٹی، جیسا کھیل جو تین دوستوں افتخار عارف، قریش پور اور عبید اللہ بیگ کے درمیان ذہنی آزمائش کا ایک ایسا کارنامہ تھا جس نے نہ صرف اس ٹیم کو بے پناہ شہرت دی بلکہ گھر گھر میں نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان یہ کھیل کھیلا جانے لگا۔ افتخار عارف اور عبید اللہ Tv Twins کہلاتے تھے اور دور دراز کے دیہاتوں میں بھی پہچانے جاتے تھے۔
افتخار عارف کے خیال میں ان کی پہلی پہچان شاعری تھی لیکن ہوا یوں کہ وہ کبھی BCCIمیں نظر آئے اور پھر لندن میں مرحوم آغاحسن عابدی کی زیر سرپرستی اردو مرکز، قائم کیا جو بقول ان کے اردو مرکز اس زمانے میں پاکستان اور ہندوستان سے باہر دنیا کا سب سے بڑا(اردو کا) ادبی ادارہ ہے۔ افتخار اس ادارے کا ذکرکرتے ہوئے کہتے ہیں۔
اس زمانے میں فیض صاحب، شہرت بخاری، فارغ بخاری، الطاف گوہر، زہرا نگاہ، عبداللہ حسین، ساقی فاروقی، احمد فراز، شاہد محمود ندیم، ہمراز احسن، ندیم مغل، بے نظیر بھٹو صاحب اور بیگم صاحبہ نصرت بھٹو، ڈاکٹر نصیر شیخ اور جام صادق علی یہ سارے کے سارے لوگ وہاں تھے اور میں نے اور آفتاب گل نے اس مرکز کو ایک ایسا ادارہ بنایا جہاں ایک لائبریری تھی اور اس میں لوگ آکر بیٹھتے تھے۔ ہم لندن مرکز میں جلسے کرتے تھے اور ایک طرح سے جتنے جلاوطن تھے ان کو ایک مرکز میسر آگیا چنانچہ وہ وہاں تشریف لاتے۔ ہمارے پاس عوامی نیشنل پارٹی کے لوگ بھی آتے تھے۔
بلوچستان سے لوگ بھی آتے تھے۔ ہم نے غیر جانب دار کردار ادا کیا، کوئی لیبل نہیں لگایا۔ ہاں ہم آج بھی جانبدار ہیں پاکستان کے حق میں، اسلام کے حق میں، مظلوم، محروم، مجبور طبقوں کے حقوق کے لیے جانبدار ہیں اور یہ ہی میری زندگی کا ایک چھوٹا سا اصول ہے۔ اچھا اب میں یہ کہوں کہ بہت سی ایسی باتیں اس زمانے میں ہوئی ہوں گی جن کو نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن میں اس کا کچھ کرنہیں سکتا ہوں۔
میرے پاس کوئی بہت زیادہ مواقع نہیں رہے۔ پاکستان جیسے ملک میں رہنے والوں کے لیے کوئی بہت زیادہ مواقع نہیں ہوتے۔ غریب گھرانے کے بچے جب میدان میں آتے ہیں تو وہ کوئی سرکاری ملازمت کریں گے۔ کسی میڈیا ہاؤس، ریڈیو اور ٹیلی ویژن میں کام کریں گے یا پھر کسی دانش گاہ سے وابستہ ہوجائیں گے۔ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے کہ وہ اپنی، اپنے بچوں اور اپنے خاندان کی اچھے طریقے سے پرورش کرسکیں، بہت ہی اچھے لکھنے والے ہمارے ایک دوست ہیں انجم خیالی۔ ان کے بقول:
اجرت کی خواہش میں، ہم مزدوروں کو
چوروں کا سامان بھی ڈھونڈنا پڑتا ہے
تو اردو مرکز سے ہر شخص نے بلا تفریق رنگ و نسل فیض حاصل کیا۔
افتخار عارف کا انٹرویو سجاد پرویز نے بہت سے محبت سے کیا اور انھوں نے بھی بہت ڈوب کردیا۔ اسے پڑھنے سے شاعری اور ادب میں اور دوسرے بہت سے شعبوں میں قدم رکھنے والے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
(جاری ہے)