وہ 1954 میں پیدا ہوا۔ مغربی میڈیا اسے یورپ کے آخری ڈکٹیٹر کے نام سے یاد کرتا ہے۔ وہ بیلا رس کا صدر ہے، سابقہ سوویت یونین سے علیحدہ ہونے و الا ایک ایسا ملک جو چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے۔
سابقہ سوویت یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد وہ متعدد سیاسی اور معاشی نشیب و فراز سے گزرا۔ بیلارس 27 برس سے اس شخص کی آہنی گرفت میں ہے جس کا نام الیگزنڈر لکاشینکو ہے۔ گزشتہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں بیلارس کی ایک مقبول سیاسی رہنما سوتلاناتیکھانووسکایا اس کے مقابل تھی لیکن حسب توقع ہار گئی۔ گزشتہ ہفتے اس نے لکھا کہ ہم جمہوریت کے لیے مشترک طورپر جدوجہد کررہے ہیں، ہمارا مطالبہ ہے کہ تمام سیاسی رہنمائوں کو آزاد کیا جائے، تاکہ بیلارس کی شہری آزادی کا سانس لے سکیں۔
گزشتہ برس کے متنازعہ انتخابات کے بعد حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ 35 ہزار شہری زیر حراست ہیں، کم سے کم 5 ہزار پر تشددکیا گیا۔ 600 سیاسی قیدی ہیں اور ان میں سے 10 قیدی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ بیلارس کے متنازعہ صدر الیگزنڈر کے خلاف ملک گیر مظاہرے ہورہے ہیں۔ سڑک پر نکلنے والے ہزاروں افراد ایک صدی پرانی بچوں کی ایک نظم کو بہ آواز بلند گاتے ہوئے نکلتے ہیں۔ یہ نظم سابق سوویت یونین کے ایک شاعر کورنی چکووسکی نے لکھی تھی اور 1923 میں ملک کے سب سے بڑے اشاعت گھر نے شایع کی تھی۔
اس نظم میں ایک ایسا عظیم الجثہ کاکروچ ہے جو کنگ کانگ کی طرح لمبا اور چوڑا ہے۔ وہ انسانوں اور جنگل کے بڑے بڑے جانوروں پر غالب آجاتا ہے۔ اس نظم کا اختصار کچھ یوں ہے۔
سارے ریچھ سیر کو نکلے
موٹر بائیک پر ہوکر سوار
ان کے عقب میں بلے میاں
اور ان کے پیچھے غبارے پر مچھر
ایک لنگڑے کتے پر ایک مچھلی
بھیڑیے سوار ہوئے ایک گھوڑی پر
شیروں نے کار کی سواری کی
کاکروچ نے دیکھا یہ لائو لشکر
کہنے لگا سب لے کر آئیں اپنے بچے بالے
آج میں انھیں کھائوں گا
یہ جو ناقابل شکست کاکروچ ہے، اس سے لڑائی کا بھی عجیب فسانہ ہے۔ مختصر یہ کہ اسے آخر کار شکست ہوجاتی ہے اور انسانوں، جنگلوں اور جانوروں کو شکست ہوتی ہے۔ بیلارس کے جمہوریت دوست لوگوں کو بچوں کی یہ نظم بہت محبوب ہے اور حزب اختلاف کی رہنما سوتلانا اس "انقلابی" نظم کا بہ طور خاص ذکر کیا ہے۔
سوتلانا ایک ہمہ گیر احتجاجی مہم چلا رہی ہے۔ اس حوالے سے اس نے امریکی صدر بائیڈن اور برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات کی اور ان سے بیلارس میں جمہوری جدوجہد پر ان کی حمایت کی درخواست کی۔ سوتلانا نے لکھا کہ ہم نے یورپ کی ترقی یافتہ برادری سے بیلارس کی غریب اور بدحال کمیونٹی کے لیے مدد طلب کی۔ ہم ڈنمارک کے بہت شکر گزار ہیں جس نے ہمارے آزاد میڈیا کی حمایت کی اور جرمنی نے بیلارس کے طالب علموں اور سول سوسائٹی کی مدد کی۔
سوتلانا کا کہنا تھا کہ ہم یورپی یونین اور امریکا کے بھی شکر گزار ہیں جس نے ان اداروں اور افراد کی حوصلہ افزائی نہیں کی جو الیکزانڈر کی مالی مدد کرتے ہیں۔ سوتلانا نے کہا کہ بیلارس کے اس مرد آہن کی حکومت کو ملک کی تعمیر نو کے نام پر اقوام متحدہ، ورلڈ بینک اور یورپی بینک کے فنڈ نہیں ملنے چاہئیں۔ اس طرح آئی ایم ایف کے فنڈ بھی اس ڈکٹیٹر کو نہیں دیے جائیں۔ یہ فنڈ ملک کی تعمیر نو کے بجائے جمہوری جدوجہد میں حصہ ڈالنے والوں کو کچلنے کے لیے استعمال ہوں گے۔
سوتلانا اور حزب اختلاف کے دوسرے رہنمائوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ بیلارس کی آمرانہ حکومت کو بین الاقوامی عدالت میں ان جرائم کے مواخذے کے لیے طلب کیا جائے جو ہمارے آمر نے گزشتہ پچیس برس سے ہمارے عوام کے ساتھ کیے ہیں۔
بیلارس کی حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ الیگزانڈر نے جو آمرانہ رویے اختیار کیے ہیں، وہ صرف ہمارے لیے ہی نہیں، یورپ کے دوسرے جمہوری ملکوں کے لیے بھی خطرناک ہے۔ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ایک دوسرے یورپی ملک کے ہوائی جہاز کو بہ جبر بیلا رس کے ہوائی اڈے پر اتارا گیا اور ہمارے ایک صحافی کو گرفتار کرکے جہاز سے لے جایا گیا۔ یہ صحافی بیلارس سے تعلق رکھتا تھا اور الیکزنڈر حکومت کا شدید مخالف تھا۔ بیلارس کی حزب اختلاف دنیا بھر کی جمہوری حکومتوں سے مسلسل اپیل کررہی ہے کہ وہ اس جمہوری جدوجہد میں بیلارس کے عوام اور آمریت کے خلاف ان کی مزاحمت کا ساتھ دیں، تاکہ یورپ کو اس کے آخری ڈکٹیٹر سے نجات دلائی جاسکے۔
دنیا 21 ویں صدی میں داخل ہوچکی ہے لیکن 20 ویں صدی کی بہت سے باقیات اب بھی موجود ہیں۔ ان میں آمرانہ نظام حکومت بھی شامل ہے۔ موجودہ صدی حقوق انسانی کے احترام اور جمہوریت کی صدی ہے۔ جو ملک اپنے شہریوں کی آزادیاں سلب کرے گا وہ بالآخر عالمی برادری میں الگ تھلگ اور تنہا رہ جائے گا۔ بیلارس کا شمار بھی ایسے ہی چند ملکوں میں ہوتا ہے۔ یہاں کے لوگ جبر سے آزادی چاہتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ طاقت کے زور پر عوام کی آرزئوں اور امنگوں کو کچلنا ممکن نہیں ہوتا۔ جبر کی قوتوں کو بھی اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ایک دن انھیں پسپاہونا ہی پڑے گا لیکن اس کے باوجود وہ اپنی بالادستی سے دست بردار ہونے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس کا جواب اب تک کوئی تلاش نہیں کرپایا۔