پاکستان جب وجود میں آیا تو یہ وہ دور تھا جب ایشیا، افریقا اور لاطینی امریکا کے بہت سے ملک غلامی کا طوق اتار کر آزاد ہورہے تھے۔ زیادہ تر ملکوں نے آزادی کے حصول کے لیے طویل جنگیں لڑیں اور مسلح جدوجہد کے نتیجے میں ہزاروں حریت پسندوں نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے۔
برصغیر اس لحاظ سے خوش قسمت رہا کہ آزادی کی خاطر اسے بہت زیادہ قربانیاں نہیں دینی پڑیں۔ آزادی کی جدوجہد میں کانگریس اور مسلم لیگ کا کردار بہت نمایاں تھا، یہ جماعتیں پرامن آئینی اور سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتی تھیں۔ آزادی کے اعلان کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث جو فسادات ہوئے ان میں لاکھوں بے گناہوں کو جانوں سے ہاتھ دھونے پڑے تھے لیکن یہ قتل عام کسی بیرونی طاقت نے نہیں کیا تھا بلکہ مقامی لوگوں نے ہی مذہبی جنون میں مبتلا ہوکر ایک دوسرے کے خون سے ہولی کھیلی تھی۔
ہندوستان کی تقسیم اور پاکستان کی تخلیق کے بعد دونوں ملکوں نے تعمیر نو کا آغاز کیا۔ ہندوستان پاکستان کے مقابلے میں کہیں بڑا ملک تھا لیکن حقیقت یہی ہے کہ پاکستان، ہندوستان سے زیادہ بہتر صورتحال میں تھا۔ لوگوں میں تحریک پاکستان کا جوش و جذبہ موجود تھا جسے تعمیری مقاصد کے لیے استعمال کیا جاسکتا تھا۔ اسی طرح غربت کی سطح بھی پاکستان میں خاصی کم تھی، ہندوستان کی بہت بڑی آبادی کو دو وقت کا کھانا میسر نہیں تھا جب کہ پاکستان میں یہ صورت حال نہیں تھی۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں آب پاشی کا دنیا کا سب سے بڑا نظام موجود تھا۔ یہ ملک بنیادی اعتبار سے زرعی تھا اور لوگوں کو کم یا زیادہ کھانے کو کچھ نہ کچھ ضرور مل جایا کرتا تھا۔ پاکستان کو انگریزوں سے فوج اور سول بیوروکریسی کے مضبوط اور منظم ادارے ورثے میں ملے تھے۔
ملک میں صنعتوں کی تعداد بہت کم تھی لہٰذا متوسط شہری طبقہ بھی زیادہ بڑا نہیں تھا۔ پاکستان دو حصوں پر مشتمل تھا اور ان دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا فاصلہ حائل تھا، ملک کے مشرقی بازو کو مشرقی پاکستان اور مغربی بازو کو مغربی پاکستان کہا جانے لگا۔ ملک کے یہ دونوں بازو ہر اعتبار سے ایک دوسرے سے الگ تھے۔
مشرقی پاکستان کے لوگوں کی قومیت بنگالی اور زبان بنگلہ تھی۔ مشرقی پاکستان دراصل مشرقی بنگال پر مشتمل تھا جس کی اکثریت مسلمان تھی۔ مغربی بنگال جہاں کی اکثریت ہندو تھی اسے ہندوستان کا ایک صوبہ بنادیا گیا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں سوائے مذہب کے کوئی اور قدر مشترک نہیں تھی بلکہ ہر اعتبار سے مشرقی پاکستان، مغربی پاکستان سے بالکل مختلف تھا۔ مغربی پاکستان میں بڑے بڑے جاگیردار، زمیندار، سردار اور خوانین سماج میں بالادست مقام رکھتے تھے، مشرقی پاکستان میں یہ طبقات سرے سے موجود ہی نہیں تھے۔ مشرقی پاکستان میں خواندگی کی شرح مغربی بازو کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی، اس لیے وہاں ایک مضبوط تعلیم یافتہ متوسط طبقہ موجود تھا جس نے تحریک پاکستان کے دوران ہر اول دستے کا کردار ادا کیا تھا۔
بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمان مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک پرجوش رہنما ہوا کرتے تھے۔ مشرقی پاکستان میں زراعت کا شعبہ بڑا نہیں تھا، کلچر، ادب، موسیقی اور فنون لطیفہ میں بنگال بہت امیر تھا۔ برصغیر میں ادب کا پہلا نوبل انعام بھی بنگلہ شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کو ملا تھا۔ بنگال کی ایک انفرادیت یہ تھی کہ اس نے سامراجی طاقتوں کے خلاف ہمیشہ زبردست مزاحمت کی اس لیے برطانیہ بنگالیوں پر اعتبار نہیں کرتا تھا۔ انھیں فوج میں شامل کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ چونکہ بنگالیوں کی اکثریت برطانوی سامراج کے سخت خلاف تھی اس لیے انگریزوں نے انھیں سول بیوروکریسی کا بھی حصہ نہیں بنایا تھا۔
لہٰذا جب پاکستان تخلیق ہوا تو اس وقت ملک کی فوج اور بیوروکریسی میں مشرقی پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ بنگال کی بغاوت سے تنگ آکر انگریزوں نے وہاں باقی ہندوستان کی طرح اپنا حامی جاگیردار طبقہ بھی پیدا نہیں کیا۔ پاکستان کی تشکیل کے بعد ملک پر سول اور فوجی بیورو کریسی اور جاگیردار مسلم لیگی سیاستدانوں کے مثلث کی بالادستی قائم ہوگئی اور نو آزاد ملک کے دونوں بازوؤں میں آزادی کے فوراًبعد ہی محاذ آرائی کا آغاز ہوگیاجو بالآخر 1971 میں پاکستان کی تقسیم پر منتج ہوئی۔
مذکورہ بالا پس منظر اس امر کو اجاگر کرنے کے لیے بیان کیا گیا ہے کہ آزادی کے بعد جن ملکوں میں آئین فوراً تشکیل پاگئے وہاں سیاسی استحکام قائم ہوگیا ان ملکوں میں معاشی اور سیاسی ترقی کا پائیدار عمل بھی شروع ہوگیا۔ چین، ہندوستان اور بنگلہ دیش کی مثالیں سامنے ہیں۔ سیاسی استحکام کے باعث چین کے عظیم رہنما ماؤزے تنگ نے تباہ حال ملک کو بہت جلد اپنے پیروں پر کھڑا کردیا۔ یہ کام ہندوستان میں کانگریس کے جواہر لعل نہرو اور بہت بعد میں بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے کیا۔
ہمارے ملک میں چونکہ اقتدار کی کش مکش کا لامتناہی سلسلہ جاری رہا، آئین تشکیل نہ پاسکا لہٰذا سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت کی مضبوط بنیادیں نہ ڈالی جاسکیں۔ اس وقت بھی ملک میں سیاسی کشمکش عروج پر ہے، موجودہ حکومت نواز شریف دور کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے بالکل آمادہ نہیں ہے۔
سیاسی عدم استحکام کے باعث پاکستان میں کسی بھی شعبے میں کوئی ٹھوس پالیسی وضع نہیں کی جاسکی۔ اس کی ایک مثال آبادی میں بے پناہ اضافہ ہے جس پر اب تک قابو نہیں پایا جاسکا ہے۔ 1951 کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 7 کروڑ 50 لاکھ تھی۔ ان میں سے 3 کروڑ 37 لاکھ افراد مغربی اور 4 کروڑ 20لاکھ مشرقی پاکستان میں رہتے تھے۔
یادرہے کہ 1971 میں جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو اس کی آبادی 6 کروڑ 53 لاکھ اور موجودہ پاکستان کی آبادی 5 کروڑ 97 لاکھ تھی۔ اب پاکستان کی آبادی بڑھ کر 22 کروڑ جب کہ بنگلہ دیش کی آبادی 16 کروڑ 14 لاکھ ہے۔ بنگلہ دیش کی طرح چین نے بھی اپنی آبادی میں اضافے کو روکا ہے اور اس وقت آبادی کی شرح نمو 0.59 فیصد سالانہ ہے۔ اسی طرح ہندوستان کی آبادی ایک ارب 36 کروڑ ہے اور اس کی شرح نمو 1.02 فیصد سالانہ ہے۔ پاکستان میں سرکاری اعلان کے مطابق آبادی میں 2.1 فیصد سالانہ کے حساب سے اضافہ ہورہا ہے جو اس خطے میں سب سے زیادہ ہے۔
سیاسی استحکام کے باعث جنوبی ایشیا میں بنگلہ دیش، ہندوستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو سب سے بہتر ہے۔ ان دونوں ملکوں کے بعد چین آتا ہے جب کہ پاکستان کی منفی شرح نمو کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں۔ ان سب ملکوں کی معیشت پھیلی جب کہ ہماری معیشت سکڑ کر کم ہوئی ہے۔ معاشی ترقی کا عمل رک جائے تو بہت سے مسائل جنم لینے لگتے ہیں جن میں غربت سرفہرست ہے۔ بنگلہ دیش، ہندوستان اور چین میں سیاسی استحکام اور تیز رفتار معاشی ترقی کے نتیجے میں غربت میں بھی تیزی سے کمی آنے لگی۔ بنگلہ دیش نے اس حوالے سے حیرت انگیز کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ 1971 میں جب بنگلہ دیش آزاد ملک بنا تھا تو وہاں غربت کی شرح 90 فیصد تھی جو اب کم ہوکر 9 فیصد رہ گئی ہے۔
یہی صورت حال ہندوستان کی ہے۔ آج سے 15 سال پہلے ہندوستان میں غربت کی لکیر سے نیچے لوگوں کی تعداد 55.1 فیصد تھی جو اب گرکر 27.9 فیصد ہوگئی ہے پچھلے دس برسوں میں 27 کروڑ لوگوں کو غربت کے جہنم سے نکالا گیا ہے۔ اب ذرا چین پر نظر ڈالیے۔ عالمی بینک کے مطابق 1981 میں 80 فیصد چینی غربت کی زندگی گزار رہے تھے اب یہ شرح محض 0.7 فیصد رہ گئی ہے۔ بڑے دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان اس خطے اور غالباً ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں غربت میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ جون 2018 میں یہ اوسط 31.3 فیصد تھی جو، جون 2020 میں بڑھ کر 40 فیصد ہوگئی ہے یعنی محض دو برس میں غربت 20 فیصد بڑھی ہے۔
ہم ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ آئین کی عمل داری ہوگی تو یہ استحکام پیدا ہوگا جس کے بعد ہی معاشی ترقی ممکن ہوسکے گی۔ ووٹ کا احترام، آئین کی بالادستی، شفاف انتخابات، پارلیمنٹ کی خود مختاری اور عوام کے منتخب نمایندوں کو "اقتدار" نہیں بلکہ "اختیار" کی حقیقی منتقلی کے بغیر ہم ترقی کی دوڑ میں کبھی آگے نہیں نکل سکیں گے۔
اب فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ وقت کم ہے۔