74 برس پہلے معرض وجود میں آنے والے ملک کے کار پردازوں نے اپنے ملک کے بانی کے خیالات کو سنسر کی نظر کردیا۔ وہ تو خدا بھلاکرے ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کا جو سرکاری افسروں پر چڑھ دوڑے اور انھیں نے وزارت اطلاعات کے افسروں کو دھمکی دی کہ اگر جناح صاحب کی تقریر ان کی قینچی کی زد میں آئی تو وہ بذات خود اس کی اطلاع قائد کو دے دیں گے۔
الطاف حسین "ڈان" کے ایڈیٹر تھے، بنگالی تھے اور آزادی صحافت کے حوالے سے ایک دبنگ نقطہ نظر رکھتے تھے، ان کی یہ دھمکی کام آگئی اور جناح صاحب کی تقریر کسی کتر بیونت کے بغیر دوسرے دن " ڈان " میں شایع ہوئی۔
اس سے اعلیٰ افسروں کوکان ہوئے، دوسرے جناح صاحب بھی سمجھ گئے کہ انھوں نے کس ملک کی بنیاد رکھی ہے۔ اس کے بعد سے آج تک صحافت اور صحافیوں کے لیے جمہوریت اور جمہوریت دوستوں کے لیے یہ سرزمین دلدلی اور دل دہلا دینے والی ہوتی گئی۔ فیض سے سبط حسن اور منہاج برنا سے سلیم شہزاد تک کتنے ہی نام ہیں جو ذہن کے پردے پر ابھرتے ہیں، پھر ڈوب جاتے ہیں۔ ان لوگوں نے سنسرکی اور قیدو بند کی صعوبتیں سہیں، کچھ مارے گئے اورکچھ باہر چلے گئے۔ ایک عجیب داستانِ کرب و بلا ہے۔
آپ کے نگاہ سے چند دنوں پہلے شایع ہونے والا وہ اشتہارگزرا ہوگا جس میں اس ملک کے وزیر اعظم سے کہا گیا ہے کہ ان کی وزارت اطلاعات سے جو مجوزہ قانون پیش کیا گیا ہے، وہ پاکستانی میڈیا اور پریس کا گلا گھونٹنے کی سخت ترین کوشش ہے۔ PMDA کے اس مجوزہ قانون میں حکومت کے اقدامات کے بارے میں تنقید کو سراسر رد کردیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے جب اپنا انتخابی منشور جاری کیا تھا اس میں آزاد میڈیا کا اور آزادی اظہارکا وعدہ کیا گیا تھا، اب اگر حکومت اپنے ان وعدوں سے پھرتی ہے تو یہ اس کے لیے سبکی کا سامان ہوگا۔
اس سیاہ قانون کو ہرگز نافذ نہ کیا جائے۔ اس طرح کے اقدام سے پاکستان کے جمہوری ڈھانچے کو نقصان پہنچے گا۔ یہ اشتہار اے پی این ایس۔ پاکستان براڈ کاسٹنگ۔ سی پی این ای۔ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس۔ ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز کی طرف سے مشترکہ طورپر دیا گیا ہے۔ اسی اشتہار میں حکومت کو یہ بھی یاد دلایا گیا ہے کہ پاکستان ورلڈ پریس کی طرف سے جاری ہونے والے سالانہ پریس فریڈم انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 145 ہے۔ جو ملکوں کی برادری میں بہت ہی نیچے ہے اور جس سے ملکی تصویر دنیا کے سامنے بہت نامناسب اور ناخوشگوار ابھرتی ہے۔
اس فریاد سے کسی کی بھی صحت پر اثر نہیں پڑتا۔ اندازہ اس بات سے لگایے کہ صحافیوں کے ساتھ ہی وکیلوں کے ساتھ یہاں کیا ہورہا ہے۔ ہمارے دوست اور ایکسپریس کے اسی صحافی پر کالم لکھنے والے توصیف احمد خان نے راشد رحمن خان کی جدوجہد کے بارے میں ایک کتاب "عشق وہ کارِ مسلسل ہے" لکھی۔ کہنے کو راشد رحمان وکیل تھے لیکن وہ حقوق انسانی، مزارعین کے حقوق، عورتوں کے حقوق اور صحافیوں کی آزادانہ سرگرمیوں کے حامی تھے۔
انھوں نے سب ہی کو انصاف دلانے کی کوشش کی۔ وکالت کا شعبہ کس طرح صحافیوں کے کام آتا ہے، اس کا اندازہ راشد رحمن کی زندگی سے ہوتا ہے۔ کوئی بھی شخص توہین کے کسی جعلی مقدمے میں پھنسا لیا جائے یا اسے اپنی کسی تحریر کے سبب غداری کے جھوٹے مقدمے میں دھر لیا گیا ہے تو راشد رحمٰن ایسے بے ریا اور باصفا وکیل ہی کام آتے ہیں۔
راشد رحمان ہندوستان کے ایک گاؤں حسن پور کے جدی پشتی رہنے والے تھے۔ ایک علاقہ جو ہندو مسلم رواداری اور بھائی چارے کے لیے اپنی مثال آپ تھا، راولپنڈی کے ہندو، مسلم، سکھ فسادات کے بعد وہاں ایسے خوفناک فسادات بھڑکے کے الامان والحفیظ۔ ان کے خاندان کے کئی لوگ قتل ہوئے، باقی لوگ جان بچا کر پاکستان آئے اور پھرجنوبی پنجاب میں ہی ان لوگوں کی بودوباش رہی۔ راشد رحمان کو صحافت سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ وہ بہ طور خاص توہین رسالت کے جھوٹے مقدموں میں اپنی جان لڑا دیتے۔ وہ ایسے ہی ایک مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے جان سے گئے۔
توصیف احمد خان نے راشد رحمان کی جدوجہد کا احاطہ بہت محبت سے کیا ہے۔ ہمیں اس موقع پر ان تمام صحافیوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جنھوں نے راشد رحمان کے قتل کی روداد بلا کم و کاست تحریر کی۔ اس کا ایک سرسری تذکرہ کرتی چلوں:
راشد رحمان نے ملتان کے علاوہ جنوبی پنجاب کے دیگر علاقوں میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا سلسلہ شروع کیا۔ راشد کو اگر دن ختم ہونے پر کسی علاقے سے انسانی حقوق کی خلاف وری کی اطلاع ملتی تو وہ اپنی جیپ میں سوار ہوکر وہاں پہنچ جاتے۔ راشد اور ان کی ٹیم کے ارکان ہر شکایت پر توجہ دیتے۔ وہ شکایات کنند گان، ان واقعات کے گواہوں اور جن افراد کے خلاف شکایت کی جاتی اور متعلقہ پولیس افسروں کا موقف حاصل کرتے اور ہر واقعہ کی تحریری رپورٹ تیار کی جاتی۔ یہ رپورٹیں ذرایع ابلاغ کو دی جاتیں اور ایچ آر سی پی کے مرکزی دفتر لاہور بھیجی جاتیں۔
یہ رپورٹیں ایچ آر سی پی کے رسالے "جہد حق" میں باقاعدہ سے شایع ہوئیں اور کمیشن کی سالانہ رپورٹ کا حصہ بنیں۔ سماجی ماہرین، صحافی اور غیر سرکاری تنظیموں کے عہدیدار، طالب علم اور اساتذہ جنوبی پنجاب میں انسانی حقوق کی صورتحال کو معلوم کرنے کے لیے راشد رحمان سے رابطہ کرتے۔ راشد رحمان نے جو رپورٹیں تیار کیں ان کی تعداد سیکڑوں سے ہزاروں کے درمیان ہوگی۔ ملتان میں راشد رحمان کے ساتھیوں کے پاس موجود ریکارڈ سے یہ رپورٹیں ملی ہیں جو شایع کی جارہی ہیں۔
سابق وزیر اطلاعات اور سینیٹ میں سابقہ حزب اختلاف شیری رحمان اس صدی کے آغاز سے ہی متنازعہ قوانین میں ترامیم کے لیے کوشاں تھیں۔ 2002 میں قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن منتخب ہوئی تھیں۔ انھوں نے اس وقت توہین کے قانون کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے قومی اسمبلی میں آوازاٹھائی تھی اور اخبارات میں آرٹیکل تحریر کیے اور ٹی وی چینلز کے ٹاک شوز میں اس موضوع پر کھل کر اظہار کیا تھا۔ شیری رحمان سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قتل کے خلاف احتجاجی تحریک کا حصہ رہیں۔ اسی دوران ان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست ملتان کی عدالت میں دائر ہوئی تھی۔ بعض تنظیموں کے کارکنوں اور بعض وکیلوں نے ان کے خلاف محاذ کھڑا کیا ہوا تھا۔
شیری رحمان نے راشد رحمان کو اپنا وکیل مقرر کیا۔ راشد نے عدالت میں وکالت نامہ داخل کیا تو وہ پھر ایک نفرت انگیز مہم کا نشانہ بننے لگے۔ سیشن جج نے فیصلہ دیا کہ محض کسی اخباری خبر کی بنیاد پر شیری رحمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی استدعا مسترد کی جاتی ہے۔ اس مقدمہ کی سماعت کے دوران شیری رحمان کو ایک دن بھی ملتان نہیں آناپڑا۔ راشد رحمان نے رضاکارانہ بنیاد پر بلامعاوضہ یہ مقدمہ لڑا اور ضروری دستاویزات کے اخراجات بھی خود ہی برداشت کیے۔
ایک ایسا شخص جو انسان دوست، ادب دوست اور قانون دوست تھا، اس کے مقدر میں گولیاں لکھی تھیں۔ اس نے وہ گولیاں اپنے سینے پر کھائیں اور پھر ان لوگو ں کو تنہا چھوڑ گیا جو بے آسرا تھے اور جن کی پیروی کرنے والا ڈھونڈنے سے ہی ملتا تھا۔