Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Zahida Hina/
  3. Mujhe Chore Do, Meri Saans Ruk Rahi Hai

Mujhe Chore Do, Meri Saans Ruk Rahi Hai

امریکا میں ان تمام انصاف پسند لوگوں کا احتجاج جاری ہے جو اپنے ملک کو نسلی تعصب سے آزاد دیکھنے کے آرزو مند ہیں۔ مظاہرین کا غم و غصہ اتنا شدید ہے کہ امریکا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 40 شہروں میں کرفیو نافذ کرنا پڑا۔ اب تک ان مظاہروں میں درجنوں افراد ہلاک و زخمی ہوچکے ہیں۔

کورونا وائرس سے امریکا سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جہاں ایک لاکھ سے زائد لوگ اس وبا کے ہاتھوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس وبا کو روکنے کے لیے لاک ڈائون بھی کیا گیا ہے لیکن کورونا کا خوف بھی لاکھوں امریکیوں کو گھروں میں بیٹھے رہنے پر مجبور نہیں کرسکا، وہ اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر تمام پابندیاں توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔

ملک کے دارالحکومت واشنگٹن میں مظاہرین کی تعداد بہت زیادہ تھی اور وہ نہایت غصے کے عالم میں تھے، انھوں نے وائٹ ہائوس کی طرف بڑھنا شروع کردیا تھا جس سے خوف زدہ ہوکر صدر ٹرمپ اپنے بنکر میں چلے گئے، انھوں نے یہ نسل پرستانہ دھمکی دی تھی کہ اگر مظاہرین نے وائٹ ہائوس میں گھسنے کی کوشش کی تو ان پر خوں خوار کتے چھوڑ دیے جائیں گے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’لوٹنگ کا جواب شوٹنگ سے دیا جائے گا، دراصل امریکا میں غلامی کے دور میں سرکشی کرنے والے غلاموں پر سفید فام آقا کتے چھوڑ دیا کرتے تھے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ امریکی تاریخ کے یہ شدید ترین مظاہرے ایک سیاہ فام امریکی جارج فلوئڈ کی ہلاکت کے خلاف ہورہے ہیں۔

جارج فلوئڈ کو ہتھکڑی لگاکر ایک پولیس افسر نے زمین پر گرایا اور اپنے گھٹنے سے اس کی گردن اتنی دیر تک دبائے رکھی جب تک کہ دم گھٹ کر اس نوجوان کی جان نہیں نکل گئی۔ اس بہیمانہ کارروائی کے دوران موقع پر موجود دیگر پولیس افسر قتل کے اس عمل کو دیکھتے رہے اور انھوں نے اپنے ساتھی افسر کو اس اقدام سے باز رکھنے اور سیاہ فام نوجوان کی جان بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ نسلی امتیاز پر مبنی اس طرح کے واقعات امریکا میں رونما ہوتے رہتے ہیں جس میں پولیس ملوث ہوتی ہے اور سیاہ فام او رنگدار لوگوں کو نشانہ بناتی ہے۔

امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے نسلی محاذ آرائی میں بہت تیزی آئی ہے کیونکہ صدر ٹرمپ انتہائی دائیں بازو کی قدامت پسند قوتوں کے لیے کافی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کے ذہن میں ایک ایسے "عظیم امریکا" کا تصور ہے جس میں سفید فاموں کی مکمل بالادستی ہو۔ امریکا کی آبادی میں سفید فام امریکیوں کی غیرمعمولی اکثریت ہے لہٰذا ایک جمہوری نظام میں ان کے مفادات کو کبھی کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ جمہوریت ایک ایسے نظام کانام ہے جس میں اکثریت کی نہیں بلکہ عوام اور قانون کی حاکمیت ہوتی ہے۔

دائیں بازو کے سفید فام انتہا پسند امریکا میں جمہوریت کے نام پر سفید فام اکثریت کی آمریت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ بھی یہی چاہتے ہیں لہٰذا وہ رنگ دار لوگوں اور نسلی و لسانی اقلیتوں کے خلاف اکثر غیر ذمے دارانہ گفتگو سے بھی گریز نہیں کرتے۔ امریکا کی اصل بڑائی اور خوبی یہ ہے کہ سفید فام امریکیوں کی اکثریت اپنے ملک کی رنگا رنگی اور تنوع پر فخر کرتی ہے، اس کا خیال ہے کہ امریکا اسی وقت عظیم ہوسکتا ہے جب ریاست میں رہنے والے تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہوں اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ سفید فام امریکیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نسلی امتیاز اور تعصب کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کررہی ہے اور عالمی شہرت یافتہ امریکی، نسل پرستی اور صدر ٹرمپ کے خلاف کھل کر اپنا موقف بیان کررہے ہیں۔ ان میں سے نام ور اداکار اور ہدایت کار جارج کلونی کا نام بہت نمایاں ہے، انھیں بہترین اداکاری پر دو اکیڈمی ایوارڈکے علاوہ امریکن فلم انسٹیٹیوٹ کی جانب سے لائف اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔

کلونی لبرل خیالات رکھتے ہیں اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں جس کے باعث وہ دائیں بازوں کے انتہا پسندوں کا ہدف بنے رہتے ہیں۔ جارج کلونی نے عراق پر امریکی حملے کی کھل کر مخالفت کی تھی، وہ انسانی حقوق کے زبردست علم بردار ہیں جنھیں اقوام متحدہ کی جانب سے امن کا سفیر بھی مقرر کیا گیا تھا۔

جارج فلوئڈ کے قتل اور نسلی پرستی کے خلاف ان دنوں امریکا میں جو مظاہرے ہورہے ہیں جارج کلونی نے اس کی حمایت میں ایک مضمون لکھا ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ یہ 1992 تھا جب ہم نے وہ ٹیپ سیکڑوں بار دیکھی جس میں روڈنی کنگ کو تشدد کا نشانہ بناکر ہلاک کرنے والے پولیس افسر کو جیوری نے بے گناہ قرار دیا تھا۔ 2014 میں سگریٹ بیچنے کے "جرم" میں ایک سفید فام پولیس افسر نے ایرک گارنر کو گلاگھونٹ کر ہلاک کردیا تھا۔ جس کے آخری الفاظ یہ تھے "مجھے چھوڑ دو، میری سانس رک رہی ہے"۔

اس نے یہ جملہ 11 بار دہرایا لیکن اس پر پولیس افسر کو رحم نہیں آیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک اس کا یہ آخری جملہ لاکھوں مظاہرین کا نعرہ بن چکا ہے جو کسی بھی سیاہ فارم کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ کلونی کہتے ہیں جارج فلوئڈ کی ہلاکت کو بلاشبہ ایک قتل قرار دیا جاسکتا ہے۔

جارج کلونی نے عدالت میں ایک سال تک مقدموں کی رپورٹنگ کرنے والی صحافی سارہ کوئنگ کا حوالہ دیا ہے جواپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ امریکا کی جیلوں میں آبادی کے لحاظ سے قیدیوں کی فیصد تعداد دنیا کے کسی بھی ملک سے کہیں زیادہ ہے۔ قیدیوں کے اعدادو شمار بتاتے ہیں ہمارے فوجداری نظام انصاف میں نسلی تعصب پایا جاتا ہے۔

ایک ہی طرح کے جرم میں سفید فام کے مقابلے میں سیاہ فام اور دیگر رنگ دار لوگوں کو زیادہ پکڑا جاتا ہے، انھیں سخت اور لمبی سزائیں دی جاتی ہیں اوران سے مہنگی ضمانتیں طلب کی جاتی ہیں۔ کلونی کے مطابق ان دنوں امریکا کی سڑکوں پر جو ردعمل سامنے آرہا ہے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ ہم اپنے شہروں سے یکساں سلوک نہیں کرتے اور ان سے نسلی تعصب روا رکھتے ہیں۔

جارج کلونی نے سب سے اہم بات یہ کہی کہ امریکا میں نسلی تعصب کا وائرس کورونا کی طرح ایک بہت بڑی وبا کے طور پر پھیل چکا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نفرت کی یہ وبا امریکا میں 400 سال سے پھیلی ہوئی ہے اور اس نے ہم سب کو متاثر کردیا ہے، ان چار سو برسوں کے دوران ہم، نسلی تعصب کی اس وبا کو ختم کرنے کی کوئی ویکسین دریافت نہیں کرپائے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ جیسے ہمیں کسی ویکسین کی تلاش ہے بھی نہیں ہے، ہم صرف انفرادی بنیاد پر زخموں کا علاج کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس حوالے سے ہماری اب تک کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی ہے۔

کلونی کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ ہم نے خود پیدا کیا ہے لہٰذا ہم ہی اسے ختم بھی کرسکتے ہیں۔ تاہم، جارج کلونی پرُامن احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے امریکی عوام کو یاد دلاتے ہیں کہ اگر انھیں نسلی تعصب اور امتیاز سے پاک اور ہمیشہ قائم رہنے والے ایک امریکی سماج کو وجود میں لانا ہے تو ان کے پاس تبدیلی کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے:" ووٹ"

امریکا کے پہلے صدارتی انتخابات 1789 میں منعقد ہوئے تھے۔ جس کے بعد سے اب تک ملک میں امتیازی قوانین کے خاتمے کے لیے کئی اصلاحات کی جاچکی ہیں۔ امریکا آج خود کو دنیا کی عظیم ترین جمہوریت کہتا ہے لیکن امریکا اپنی 400 سالہ تاریخ اور 58 صدارتی انتخابات کے بعد بھی عملی طور پر نسلی تعصب اور صنفی امتیاز سے پاک سماج بنانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ اب سے چند ماہ بعد 3 نومبر 2020کو امریکی عوام اپنے 59 ویں صدر کو چننے کے لیے ان نمائندوں کا انتخاب کریں گے جو 14 دسمبر 2020 کو ان کی نیابت کرتے ہوئے امریکا کے اگلے صدر کو منتخب کریں گے۔

امریکی عوام کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ اپنے "ووٹ" کی طاقت سے وہ ایک نیا امریکا تخلیق کردیں جس میں کوئی پولیس افسر کسی سیاہ فام یا رنگ دار کا گلا نہ گھونٹے، اس کی گردن پر گھٹنا رکھ کر اسے موت کی نیند نہ سلائے اور مرتے ہوئے انسان کو یہ آخری لفظ نہ کہنے پڑیں کہ مجھے چھوڑ دو، میری سانس رک رہی ہے۔

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran