یہ پہلے برسوں کی بات ہے جب کراچی کے رشین سینٹر آف سائنس اینڈ کلچر نے بیسویں صدی کے عالمی شہرت یافتہ اور متنازعہ فیہ روسی دانشور، ادیب، مورخ اور شاعر الیکساندر سولزے نتسن کی یاد میں ایک ادبی محفل منعقد کی۔ محفل کی ابتدا میں سینٹر کے ڈائریکٹر سرگئی کزنسوف نے اسے روس کا عظیم فرزند کہا تو مجھے بے اختیار یہ محاورہ یاد آیا کہ "کبھی کے دن بڑ ے، کبھی کی راتیں۔"
ایک وہ زمانہ تھا جب اسے گرفتار کیا گیا، مختلف بیگار کیمپوں میں رکھا گیا، بدترین جسمانی مشقت کرائی گئی، کئی مرتبہ جلاوطن کیا گیا، اس کی لکھی ہوئی تحریریں ضبط کی گئیں، ضایع کردی گئیں اور اب اس کی پیدائش کا جشن منایا جا رہا ہے۔ نیرنگیٔ زمانہ اسی کو کہتے ہیں۔
یتیم پیدا ہونے والے سولزے نتسن کو بچپن سے ہی ادیب بننے کا شوق تھا اور کیوں نہ ہوتا کہ ماں ادب کی رسیا تھی، انگریزی اور فرانسیسی اس نے ماں سے سیکھی لیکن وہ جس دور افتادہ علاقے میں رہتا تھا وہاں ادب نہیں پڑھایا جاتا تھا۔ مجبوراً اس نے ریاضی اور طبیعات پڑھی۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے دن تھے، فاشسٹ قوتوں نے اس کے وطن پر حملہ کیا تو وہ فوراً سرخ فوج میں شامل ہو گیا اور اس بے جگری سے لڑا کہ دو فوجی اعزازات سے نوازا گیا۔
وہ پیدائشی ادیب تھا اور اس کی دانش اسے جبر و استبداد کے خلاف لکھنے پر اکساتی تھی، اسے اپنے وطن سے بے پناہ محبت تھی۔ لیکن حکمران اشرافیہ کے ظلم و ستم سے وہ ہر وقت بے آرام رہتا تھا۔ محاذ جنگ سے اس نے اپنے ایک دوست کو 1945 میں ایک خط لکھا جس میں محاذ کی باتوں کے ساتھ ہی حکومت پر تنقید کی اور ملک کے مرد آہن کو "بڑی بڑی مونچھوں والا" لکھ دیا۔ خط سنسر ہوا۔
حکومت اور حکمران پر تنقید ناقابل معافی تھی۔ سوویت کریمنل کوڈ کے آرٹیکل 58 کے پیرا 10 اور 11 کے تحت وہ فروری 1945 میں گرفتار ہوا اور آٹھ برس اس نے بیگار کیمپوں میں گزارے۔ وہ حساس اور دانشور نوجوان جسے آگے چل کر صدی کا ایک عظیم ادیب سمجھا جانے والا تھا، اس نے راج مزدور کے طور پر اینٹوں کی چنائی کی اور زمین کی گہرائیوں میں اتر کر کان کنی کرنا اس کا مقدر ہوا۔
نوجوانی کے دنوں میں اس نے فلسفہ، تاریخ اور ادب کا گہرا مطالعہ کیا تھا، ماں سے فرانسیسی اور انگریزی سیکھی تھی، ان زبانوں کا ادب پڑھا تھا۔ دل لکھنے کے لیے ترستا اور تڑپتا تھا لیکن کاغذ اور پنسل کا حصول بیگار کیمپ میں ایک ایسی عیاشی سے کم نہ تھا، جس کے صرف خواب دیکھے جاسکتے تھے۔ وہ قازقستان کے ایک ایسے بیگار کیمپ میں بھیجا گیا جہاں "لکھنا" جرم تھا۔
ذہن پر ہر وقت خیالات کی یلغار رہتی، وہ کبھی شہادت کی انگلی سے مٹی پر لکھتا اور کبھی کسی نوکیلی چیز سے پیڑ کے تنے یا دیوار پر کچھ لکھنے کی کوشش کرتا۔ ان ہی دنوں اس کی نظر اپنے ساتھی مزدوروں کی تسبیح پر پڑی۔ لیتھونیا کے ان کیتھولک عیسائیوں کو تسبیح رکھنے کی اجازت نہ تھی۔ سو وہ راشن میں ملنے والی ڈبل روٹی کے ٹکڑوں کو چبا کر انگلیوں سے انھیں گول کرتے اور پھر کسی دھاگے میں پرو لیتے۔ سولزے نتسن نے ان سے درخواست کی کہ وہ اس کے لیے اسی طرح کی تسبیح بنا دیں۔
بس خیال اس کا رکھیں کہ اس میں دانے عام تسبیح سے زیادہ ہوں۔ ایسی ایک تسبیح جب اسے مل گئی تو اس نے ہر دانے پر ذہن میں آنے والے خیالات ترتیب سے حفظ کرنے شروع کردیے۔ اس نے ایک جملے کو سو مرتبہ دہرایا یہاں تک کہ وہ اس کے حافظے میں نقش ہو گیا۔ یہ کام برسوں جاری رہا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس طرح میں نے اپنی سوچی ہوئی بارہ ہزار سطریں یاد کیں۔ اسے جب آزادی ملی تو یہ سطریں اس نے کاغذ پر اتاریں لیکن اس وقت بھی مسئلہ اپنے ناولٹ یا کہانی کو چھپوانے کا تھا، اس لیے کہ اس کی تحریروں کی اشاعت پر پابندی تھی۔
قازقستان سے اسے ایک دوسرے بیگار کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ یہاں اسے ریاضی اور طبیعات پڑھانے کا کام سونپا گیا۔ اس جگہ سب سے بڑی نعمت کاغذ اور پنسل تھی، جسے وہ چھپا کر رکھتا اور رات میں خفیہ طور سے کہانیاں، یادداشتیں اور نظمیں لکھتا، یہیں اسے کینسر ہوا۔ یہ دور اس نے بہت ہمت سے گزارا، اس کا مختصر ناول "کینسر وارڈ" ان ہی دنوں کے حوالے سے لکھا گیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے وہ "آئیوان ڈینزووچ کی زندگی کا ایک دن" لکھ چکا تھا۔
وہ آٹھ برس کی قید گزار کر آیا تو ایک ادیب دوست کی کوششوں سے یہ ناولٹ اس وقت کے حکمران نکولائی خروشیف کی نظر سے گزرا تو خروشیف نے اس کی اشاعت کی اجازت دے دی۔ یوں "آئیوان ڈینزووچ" 1962 میں پہلی مرتبہ شایع ہوا۔ اس وقت سولزے نتسن کی عمر 44 برس ہو چکی تھی۔ خروشیف پر جب اس ناولٹ کی اشاعت کے حوالے سے تنقید ہوئی تو اس نے کہا تھا کہ "ہم سب کے اندر ہمارے مرد آہن کا چھوٹا سا بت چھپا بیٹھا ہے۔
وہ میرے اندر بھی ہے ہم سب کو اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے اندر سے اس بدی کو نکال پھینکیں۔" خروشیف کے دور اقتدار میں یہ ناولٹ ملک کے سب سے بڑے اور معتبر ادبی رسالے میں شایع ہوا تو اس کی دھوم مچ گئی اور اس کا فوراً ہی یورپ کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اس سے وہ دنیا میں جانا پہچانا جانے لگا لیکن اچھے دن ایک بار پھر گزر گئے۔
خروشیف کی حکومت کا تختہ الٹا گیا، شدت پسند ایک بار پھر برسر اقتدار آگئے۔ اس کی تحریروں کی اشاعت پر پابندی عائد کردی گئی، اس کے کئی مسودے بحق سرکار ضبط کرلیے گئے۔ اور اسے غدار کہہ کر جلاوطن کردیا گیا۔ اب اس کا نام یورپ میں گونج رہا تھا، اس کے تراجم مختلف یورپی اور مشرقی زبانوں میں ہو رہے تھے۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ ٹالسٹائی، ترگنیف، دوستووسکی اور چیخوف کے پائے کا لکھنے والا ہے اور اسے انا اخماتوف اور پاسترنگ سے تشبیہ دی جا رہی تھی جن کی تحریریں سخت گیر سنسر شپ کی نذر ہوئیں۔
یہ 12 نومبر 1969 تھا جب ایک حکم نامے کے تحت اسے رائٹرز یونین سے نکال دیا گیا۔ اس کی خطا یہ تھی کہ اس نے اپنی مہتم بالشان اور ضخیم یادداشتیں مکمل کی تھیں جنھیں دنیا Gulag Archipelago کے نام سے جانتی ہے۔ یہ اس جہنم زار کے بارے میں ہے جو سوویت شہریوں کو بدترین عقوبتوں سے گزارنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ ماسکو کے چند ادیبوں نے رائٹرز یونین کے اس فیصلے سے اس فیصلے سے اختلاف کیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ ان کے اس اختلاف کی تشہیر کی جائے۔
اس موقع پر اس نے اپنے ہم عصر ادیبوں کے نام ایک کھلا خط لکھا جو ادبی شاہکار ہونے کے ساتھ ہی ادیب کی ذمے داریوں اور سچ سے ادیب کے رشتے پر ایک اثرانگیز تحریر ہے۔ رشین ری پبلک رائٹرز یونین سیکریٹریٹ کے نام سولزے نتسن نے اپنے اس کھلے خط میں لکھا کہ آپ لوگوں نے اپنے ہی فیصلے سے اپنے اصول اپنے قدموں کے نیچے روند دیے ہیں۔ آپ نے مجھے میری غیر موجودگی میں یونین کی رکنیت سے خارج کیا حالانکہ آپ مجھے خط لکھ کر بلا سکتے تھے۔
میں آپ سے صرف 4 گھنٹوں کے فاصلے پر تھا۔ کیا آپ میرا موقف سننے کے لیے مجھے صرف 10 منٹ نہیں دے سکتے تھے؟ میں دس منٹ میں جو کہتا، میں وہ سب کچھ اپنے اس کھلے خط میں بیان کر رہا ہوں۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ گھڑی پر جمی ہوئی گرد کو صاف کریں۔ آپ کی گھڑیاں وقت سے پیچھے ہیں۔ کھڑکیوں پر پڑے ہوئے وہ دبیز اور بھاری پردے جو آپ کو بہت پیارے ہیں انھیں ہٹا دیں۔
آپ کو اس بات کا گمان بھی نہیں ہے کہ باہر دن طلوع ہو چکا ہے۔ یہ وہ دن نہیں رہے جب اس انداز میں انا اخماتوف کو بھی روسی ادیبوں کی انجمن سے خارج کردیا گیا تھا، اپنے اسی خط میں وہ روسی ادیبوں کو یاد دلاتا ہے کہ سب سے پہلے انسانیت سے ہمارا ناتا ہے۔ ایماندارانہ اور مکمل کھلا پن، دنیا کے تمام سماجوں کی (ذہنی) صحت کے لیے لازم ہے اور اس میں ہمارا سماج بھی شامل ہے۔
(جاری ہے)