Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Zahida Hina/
  3. Pindi Sazish Case Ka Akhri Kirdar (1)

Pindi Sazish Case Ka Akhri Kirdar (1)

اکتوبر 2021 کی چھٹی تاریخ کو بد نام زمانہ پنڈی سازش کیس کے آخری زندہ کردار ظفر اللہ پوشنی نے بھی خاک کی چادر اوڑھ لی جن کی عمر 95 برس تھی۔

اس مبینہ سازش کیس کے بارے میں اس وقت کے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے کہا تھا "کچھ ہی دیر پہلے پاکستان کے دشمنوں کی ایک سازش پکڑی گئی ہے۔ اس سازش کا مقصد یہ تھا کہ تشدد کے ذریعے ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلائی جائے۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر افواج پاکستان کی وفاداری کو بھی ملیا میٹ کردیا جائے۔"

یہ نام نہاد سازش کیس جس طرح چلایا گیا اور سرکاری طور پر اس کی جس قدر تشہیر کی گئی اس نے بہت سے افراد اور گھرانوں کی زندگی تہہ و بالا کردی۔ پوشنی صاحب کے انتقال کے چند گھنٹوں بعد بی بی سی اردو سروس نے ثقلین امام کے حوالے سے 10 مارچ 2021 کو شایع ہونے والی رپورٹ جاری کی۔ یہ ایک بہت تفصیلی رپورٹ ہے اس کے چند حصے یہاں دیے جا رہے ہیں۔

اس سازش میں شریک تمام فوجی افسران اپنی پیشہ وارانہ قابلیت کے لحاظ سے ایک شاندار ریکارڈ رکھتے تھے۔ انھوں نے دوسری عالمی جنگ میں حصہ لیا تھا تمام ہی افسران " ڈیکوریٹڈ" تھے۔ حکومت پاکستان کے کہنے پر برطانوی حکومت نے انھیں سزائیں سنائے جانے کے بعد ان سب کے اعزازات 1953میں ضبط کر لیے تھے، لیکن 1973 میں یہ اعزازات بحال کر دیے گئے تھے۔

اس سازش میں ملوث 15افراد مختلف نسلوں، مختلف علاقوں اور مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان افراد کے اتنے زیادہ مختلف ہونے کے باوجود ان میں مشترک بات کیا تھی؟ ظفراللہ پوشنی اپنی 1976 میں شایع ہونے والی کتاب "زندگی زندہ دلی کا نام ہے" میں لکھتے ہیں کہ ان سب کا حکومت کی کشمیر اور خارجہ پالیسی سے اختلاف تھا۔ صحافی اور دانشور علی جعفر زیدی اپنی یاد داشتوں پر مشتمل کتاب " باہر جنگل اندر آگ" میں ایئرکموڈور جنجوعہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ 23 فروری کی اس میٹنگ میں شریک تمام افراد کمیونسٹ نظریات کے حامی نہیں تھے بلکہ سامراج دشمن اور محب وطن افراد تھے۔

ان میں سے کچھ تو بقول سابق ایئرکموڈور جنجوعہ کمیونسٹ دشمن تھے۔ بریگیڈیئر لطیف توتہجدگزار اورکمیونسٹ دشمن تھے، بریگیڈیر صادق تو نماز روزے کے پابند تھے، کرنل محمد ارباب کا کمیونزم سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ کرنل ضیا الدین تہجد گزار اورکمیونزم دشمن تھے۔

ظفراللہ پوشنی لکھتے ہیں کہ "اس چارج شیٹ کی عبارت اور ترتیب اب مجھے صحیح یاد نہیں رہی کیونکہ اس واقعے کو خاصا عرصہ گزر چکا ہے۔ یوں بھی مقدمہ ختم ہونے کے فوراً بعد تمام متعلقہ کاغذات اور دستاویزات ہم سے واپس لے لی گئی تھیں، تاہم لبِ لباب ان الزامات کا یہ تھا کہ ان 15 ملزمان نے مختلف مواقع پر مل جل کر حکومت کا تختہ الٹنے کی اسکیمیں بنائیں اورکابینہ کے فاضل ارکان کو گرفتارکرنے کا فیصلہ کیا تھا۔"

یہ دونوں افراد (کرنل صدیق راجہ اور میجر یوسف سیٹھی) عدالت میں استغاثہ کی جانب سے ملزموں کے خلاف پیش ہوں گے۔ مقدمات تعزیرات پاکستان کی دفعات 121، 121 اے، 124 بی، 120، 365، 302، 342 اور 120 کے تحت بنائے گئے تھے۔" ان دفعات کے علاوہ آرمی ایکٹ کی دفعہ 27 اے اور سی بھی ہم سب پر عائد کی گئی تھی۔

اس کے علاوہ چارج شیٹ میں اس مقدمے کے قانون کے مطابق یہ بھی کہا گیا تھا کہ " مقدمے کی کارروائی کے دوران میں اگرکوئی اور جرم ثابت ہو گیا تو ملزموں کو اس کے تحت بھی سزا دی جا سکتی ہے۔" ظفراللہ پوشنی نے اپنی تصنیف میں کہا کہ " اس رات (23 فروری) پنڈی سازش کیس کے ارکان کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پائے تھے۔ فیض اور سجاد ظہیر بھی اس غیر جمہوری عمل کے حق میں نہیں تھے، انھوں نے اس کے خلاف دلائل دیے۔ آٹھ گھنٹے کی تند و تیز بحث و تمحیص کے بعد بالآخر جنرل اکبر خان کے پیش کردہ منصوبے کو ناقابلِ عمل سمجھ کر رد کردیا گیا۔"

گرفتار ہونے والے افسران اور غیر فوجی ملزمان پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک خصوصی ٹریبیونل تشکیل دینے کے لیے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی میں قانون سازی کی گئی۔ ان ملزمان پر جو الزامات عائد کیے گئے تھے ان کے تحت انھیں سزائے موت بھی دی جا سکتی تھی جس کی ان سب کو توقع بھی تھی۔ اس خصوصی ٹریبیونل کے قانون کا نام "راولپنڈی کانسپیریسی (اسپیشل ٹریبیونل) ایکٹ، 1951 قرار پایا۔ اس قانون کے تحت ملزمان کو کئی بنیادی حقوق سے محروم کر دیا گیا اورکسی بھی فیئر ٹرائل کے معیار سے اس قانون کو جائز نہیں کہا جاسکتا تھا۔

اس میں فیصلے کے خلاف اپیل کا حق بھی نہیں تھا۔ یہ قانون ایک مقدمے کے حالات و واقعات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اس قانون میں نہ ضمانت کا حق تھا نہ جیوری کا۔ پاکستانی حکومت نے بعد میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن میں کئی یورپی ممالک کی ٹریڈ یونینز کی جانب سے داخل کی گئی شکایتوں پر یہ موقف اختیارکیا تھا کہ راولپنڈی کانسپیریسی ایکٹ، 1951 میں اپیل کا حق نہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ اس کے ایک رکن فیڈرل کورٹ کے جج تھے، اس لیے ان کی شمولیت کی وجہ سے اسے فیڈرل کورٹ کی حیثیت حاصل ہے، لہٰذا فیڈرل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے حق کی ضرورت نہیں ہے۔

حالانکہ اس قانون کے آرٹیکل میں واضح طور پر لکھا ہوا تھا کہ اس ٹریبیونل کو ایک ہائی کورٹ کے تمام اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس ٹریبیونل کے قانون کے مطابق مقدمے کی کارروائی خفیہ رکھی جانا تھی۔ لیاقت علی خان نے اس کی وجہ اسمبلی میں یہ بیان کی تھی کہ خصوصی نوعیت کی یہ کارروائی ملزمان کے مفاد میں نہیں ہوگی بلکہ پاکستان کے مفاد میں ہو گی۔ اس مقدمے کی کارروائی کا آغاز15 جون1951کو ہوا۔ ٹریبیونل کے تین جج تھے، فیڈرل کورٹ کے جج جسٹس عبدالرحمان، پنجاب ہائی کورٹ کے جج جسٹس محمد شریف اور ڈھاکا ہائی کورٹ کے جج جسٹس سمیر الدین۔

آج کے ایک ماہرِ قانون اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج، جسٹس بابرستار نے اس ٹریبیونل پر اپنے ایک آرٹیکل میں راولپنڈی کانسپیریسی ایکٹ، 1951 کے تحت بننے والے اسپیشل ٹریبیونل پر تبصرہ کرتے ہوئے دو برس قبل لکھا تھا کہ " ریاست کی جن معاملات میں دلچسپی ہو وہاں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کا رجحان کم از کم 1951 تک جا پہنچتا ہے۔"ملزمان کی جانب سے کئی وکلا نے اپنی خدمات پیش کیں۔ جن میں نمایاں نام حسین شہید سہروردی کا تھا۔ سہروردی سوشلسٹ وکیل تھے اور نہ ہی ملک دشمن۔ انھیں اس مقدمے پر کبھی بھی یقین نہیں تھا۔ بعد میں انھوں نے سزا پانے والوں کی رہائی کے لیے بھی کوششیں کیں اور بالآخر کامیاب ہوئے۔

حکومت نے سرکاری وکیل کی خدمات کی بھی پیش کش کی تھی۔ استغاثہ کی جانب سے اپنے وقت کے معروف وکیل اے کے بروہی پیش ہوئے تھے۔ مقدمے کی طوالت اور ملزمان کے وسائل کی کمی کی وجہ سے ملزمان کے اکثر وکلا پیروی سے علیحدہ ہوتے گئے تاہم سہروردی آخر تک مقدمے میں ملزمان کی پیروی کرتے رہے۔

ظفر اللہ پوشنی لکھتے ہیں کہ جب مقدمہ چل رہا تھا تو ایک ایک کر کے ملزمان کے وکلا مالی مسائل کی وجہ سے پیروی کرنے سے معذوری ظاہر کرکے الگ ہوتے گئے۔ اس کارروائی کے دوران ایک عام تاثر یہ تھا کہ جنرل اکبر اور فیض احمد فیض کو سزائے موت دی جائے گی۔ جس دن مقدمے کا آخری دن تھا توٹریبیونل کی کارروائی کے اختتام پر حسین شہید سہروردی نے جنرل اکبر خان اور فیض احمد فیض کو بتایا تھا کہ ان دونوں کو سزائے موت سنائی جائے گی۔ فیض بظاہر مطمئن نظر آئے۔ ان کے جیل کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ اْن کے چہرے پر ان کی مہین سی مسکراہٹ رہی، سگریٹ پیتے ہوئے وہ بظاہر پرسکون نظر آئے۔

(جاری ہے)

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran