Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Zahida Hina/
  3. Polling Booth Ba Muqabla Coronavirus

Polling Booth Ba Muqabla Coronavirus

جنوبی کوریا ایشیا کے ہم جیسے ملکوں کے لیے ایک مثال ہے۔ نوآبادیاتی غلامی سے آزادی کے بعد اس ملک نے جس حیرت انگیز طور پر ترقی کی ہے اس سے یقینا بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔ اس کی آبادی 5 کروڑ یعنی ہماری آبادی کا ایک چوتھائی ہے۔ اس کا کل رقبہ صرف 97 ہزار مربع کلومیٹرہے۔ جب کہ ہمارا ملک 88 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اب ذرا اس کی معاشی طاقت کا اندازہ لگائیے۔

جنوبی کوریا کی مجموعی داخلی پیداوار، ایک کھرب چھ سو ارب ڈالر ہے۔ جب کہ ہماری جی ڈی پی 284 ارب ڈالر تک محدود ہے۔ کوریا 1945 میں جاپان کے تسلط سے آزاد ہوا تھا، لیکن آزادی اس کے لیے کئی مشکلات ساتھ لائی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد کوریا بحران اور انتشارکا شکار ہوگیا۔ اشتراکی فوج نے ملک کے شمالی حصے کو فتح کرلیا۔

اقوام متحدہ کی مداخلت کے بعد تین سالہ جنگ کا خاتمہ ممکن ہوسکا۔ زیادہ تر نو آزاد ملکوں کی طرح جنوبی کوریا پر بھی غیر جمہوری طاقیں اقتدارپر مسلط ہوگئیں۔ طویل عرصے بعد 1987 میں یہاں پہلے آزاد قومی انتخابات منعقد ہوئے اور جنوبی کوریا میں جمہوریت کا سفر شروع ہوگیا۔

کسی بھی ملک کی تیز رفتار ترقی کا راز اس ملک کی آبادی کے حجم یا رقبے کے کم یا زیادہ ہونے پر نہیں ہوتا۔ اس کے لیے اور بھی کئی عوامل درکار ہوتے ہیں۔ جنوبی کوریا کی حکومتوں نے تعلیم، سائنس، جدید ٹیکنالوجی اور صنعتکاری کے شعبوں کو اولین ترجیح دی۔ درست ترجیحات کی وجہ سے یہ ملک ایک ترقی یافتہ ملک میں تبدیل ہوگیا۔ آج سام سنگ، ہنڈائی اور کیا کے برانڈ پوری دنیا میں مشہور ہیں۔ اس ملک کا ہر شخص لکھنا اور پڑھنا جانتا ہے خواندگی کی شرح مردوں میں 99.2 % اور خواتین میں 96.6 فیصد ہے۔

جنوبی کوریا بعض دیگر حوالوں سے بھی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ خوش حال ہونے اور قوت خرید رکھنے کے باوجود یہاں کے لوگ بے تحاشا کھانے پر یقین نہیں رکھتے۔ امریکا میں صورتحال اس کے برعکس ہے جہاں موٹاپے کی شرح 60% جب کہ جنوبی کوریا میں صرف 3 % ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ امریکا کے 60 % لوگ ضرورت سے زیادہ کھانے اور پینے کے شوقین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا میں موٹاپے کی وجہ سے ہونے والی اموات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔

جنوبی کوریا کی ایک انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہاں 20% مرد حضرات باقاعدگی سے روزانہ میک اپ کرتے ہیں اور اس شوق پر 900 ملین ڈالر خرچ کرڈالتے ہیں۔ الکوحل پینے کے معاملے میں بھی وہ روسیوں کو بہت پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔ یہاں کم، لی اور پارک سب سے مقبول نام ہیں۔ 20 % آبادی کے نام کم سے شروع ہوتے ہیں۔

نظم و ضبط اور اصولوں کی پاسداری میں بھی یہاں کے لوگوں کا کوئی جواب نہیں۔ سرخ بتی پر رکنے والوں کی شرح 99.9 فیصد ہے۔ یہاں کے لوگ بلڈ گروپ کے بارے میں بہت حساس ہیں۔ شادی بیاہ کا معاملہ طے کرنے میں اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو یہ معلوم ہوگا کہ جنوبی کوریا وہ واحد ملک ہے جہاں بچے کی پیدائش پر اس کی عمر ایک سال درج کردی جاتی ہے۔

مندرجہ بالا حقائق سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جنوبی کوریا کے لوگ دنیا میں اپنا ایک مختلف اور منفرد مزاج رکھتے ہیں۔ یہ ان کی حکومتوں کا کمال تھا کہ انھوں نے تعلیم اور صحت کا اعلیٰ ترین نظام قائم کیا اور قانون کی حکمرانی کو عوام کے مزاج کا حصہ بناکر معیشت کو ترقی دی اور خوشحالی کے ثمرات میں اپنے شہریوں کو حصہ داربنایا۔ جس سے ان کے اندر اپنے وطن سے محبت کا حقیقی جذبہ از خود بیدار ہوگیا اور ایسا کرنے کے لیے تقریروں اورملی نغموں کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔ اس ملک پر جب بھی کوئی مشکل وقت آیا، عوام نے آگے بڑھ کر اپنی حکومت کا بھرپور ساتھ دیا۔ اسی کی تازہ ترین مثال کورونا وائرس کے خلاف جنگ ہے جو یہاں کے شہریوں اور حکومت نے مل کر لڑی اور اس میں فتح و کامرانی حاصل کی۔

جنوبی کوریا کی حکومتوں کی ہمیشہ یہ خاصیت رہی ہے کہ وہ مشکل فیصلے کرنے میں کبھی تاخیر نہیں کرتیں۔ انھیں جب یہ علم ہوا کہ یہ وبا چین میں پھیل رہی ہے تو یہاں کی حکومت نے اپنے ملک میں اس آفت کے آنے کا انتظار نہیں کیا۔ ملک میں کورونا وائرس کے پہلے مریض کی تشخیص ہونے سے قبل ہی اس وائرس کے ٹیسٹ شروع کردیے۔ فروری کے اوائل سے ہی وسیع پیمانے پر یہ سراغ لگانے کی مہم شروع کردی گئی کہ جن لوگوں کے نتائج مثبت آئے ہیں وہ کن لوگوں سے رابطے میں آئے تھے۔ انھوں نے بس پر سفر کیا تھا۔ ان کی نشست کا نمبر کیا تھا اور وہ کس جگہ بس سے اترے تھے۔ اس ڈیٹا کو انٹرنیٹ پر عام کردیا گیا تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کہیں کسی متاثرہ فرد سے رابطے میں تو نہیں آئے تھے۔

حکومت نے بڑے جارحانہ انداز میں لوگوں کے ٹیسٹ لینے شروع کردیے جو فرد مثبت پایا گیا اسے دوسروں سے فوراً الگ کردیا گیا۔ ایک ماہ بعد جب یہ وبا اپنے عروچ پر پہنچی تو اس وقت تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگوں کے ٹیسٹ لیے جاچکے تھے۔ مارچ کے آخر تک حکومت اس تعداد سے تین گنا زیادہ ٹیسٹ لے کر متاثرہ افراد سے رابطوں میں آنے والوں کا پتہ چلا چکی تھی۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس حکمت عملی کے ذریعے جنوبی کوریا نے اس وبا کو پھیلنے سے روک دیا۔ امریکا کی حکومت یہ نہ کرسکی اور وہاں کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔

تاریخ میں غیر معمولی ترقی کرنے والی اقوام کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ غیر معمولی اور مشکل ترین حالات میں بھی اپنے اداروں اور نظام کو مفلوج نہیں ہونے دیتیں۔ اس وقت کورونا وائرس کو تیسری عالمی جنگ بھی کہا جاسکتا ہے اس کی نوعیت اس اعتبار سے مختلف ہے کہ اس میں دنیا کے ملک ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ ایک مشترکہ دشمن کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ جنوبی کوریا میں دستور کے مطابق 15 اپریل 2020 کو قومی سطح پر عام انتخابات کا شیڈول طے تھا۔ اس وبا کی وجہ سے دنیا میں انتخابی شیڈول تبدیل ہوئے۔

امریکا ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار کا انتخاب کرنے کا عمل تعطل کا شکار ہوا۔ برطانیہ کے مقامی انتخابات بھی ملتوی کردیے گئے۔ لیکن جنوبی کوریا نے اس وبا کے سامنے جمہوریت کو پسپا نہیں ہونے دیا اور ہر قیمت پر اس کے انعقاد کا فیصلہ کیا۔ اس عالمی وبا کے دوران جنوبی کوریا دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں 15 اپریل کو عام انتخابات کا مرحلہ کامیابی سے مکمل کرلیا گیا۔ عوام نے بھرپور اعتماد کا مظاہرہ کیا اور بڑی تعداد میں پولنگ بوتھ پر آکر 66 % ووٹروں نے اپنا ووٹ ڈالا جو ایک تاریخی واقعہ ہے۔ اہل ووٹروں کی کل تعداد 4 کروڑ 40 لاکھ تھی جب کہ 2016 کے قومی انتخابات میں 58 % ووٹ ڈالے گئے تھے۔

جب ووٹ ڈالے جارہے تھے تو کورونا وائرس کے تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد 10600تھی اور 220 افراد وبا کے باعث ہلاک ہوچکے تھے۔ پولنگ بوتھ پر لوگوں کے ہجوم کو کم رکھنے کے لیے 10-11 اپریل کو ابتدائی ووٹنگ ہوئی جس میں تقریباً ایک کروڑ 17 لاکھ لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ انتخابات کے وقت 60، 000 اہل ووٹر قرنطینہ میں تھے جن میں سے 22.8 % یعنی 13، 642 ووٹروں نے ووٹ ڈالنے کے لیے درخواستیں دیں۔ حکومت نے انھیں بھی موقع فراہم کیا۔ انھیں ہدایت کی گئی کہ وہ اپنے گھروں سے 5 بج کر 20 منٹ پر باہر نکلیں اور 6 بجے شام تک پولنگ بوتھ پرپہنچ جائیں۔ اس وقت تک عام ووٹر ووٹ ڈال کر جاچکے ہوں گے۔

ان کو ہدایت کی گئی کہ 6 سے 7 بجے کے درمیان ووٹ ڈال کر واپس گھر پہنچ جائیں۔ حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے جو غیر معمولی حفاظتی تدابیر کی گئیں یہاں اس کا ذکر ضروری نہیں۔ پارلیمنٹ کی کل 300 نشستوں میں سے اکثریت حاصل کرنے کے لیے 151 نشستوں پر کامیابی درکار ہوتی ہے۔ عوام نے حکمران ڈیموکریٹک پارٹی کو 180 نشستوں پر کامیابی دلاکر کورونا وائرس کے خلاف اس کی کارکردگی کا بھرپور اعتراف کیا۔ اب جنوبی کوریا کورونا وائرس کے مکمل خاتمے کے لیے کوشاں ہے۔

جنوبی کوریا نے پولنگ بوتھ کو کورونا وائرس کے مقابلے میں کھڑا کیا، عوام کی طاقت اس پر غالب آئی۔ اب سمجھ میں آتاہے کہ یہ ملک معجزے کیوں کر رونما کرلیتا ہے۔

About Zahida Hina

Zahida Hina is a noted Urdu columnist, essayist, short story writer, novelist and dramatist from Pakistan.

Zahida was born in the Sasaram town of Bihar, India. After the partition of India, her father, Muhammad Abul Khair, emigrated to Pakistan and settled in Karachi, where Zahida was brought up and educated. She wrote her first story when she was nine years old. She graduated from University of Karachi, and her first essay was published in the monthly Insha in 1962. She chose journalism as a career in mid 60s. In 1970, she married the well-known poet Jon Elia. Zahida Hina was associated with the daily Jang from 1988 until 2005, when she moved to the Daily Express, Pakistan. She now lives in Karachi. Hina has also worked for Radio Pakistan, BBC Urdu and Voice of America.

Since 2006, she has written a weekly column, Pakistan Diary in Rasrang, the Sunday magazine of India's largest read Hindi newspaper, Dainik Bhaskar.

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran