ان چند برسوں میں پاکستان اور ہندوستان کی عورتوں کی جدوجہد اور دونوں ملکوں کے درمیان امن کی کوششوں کوکیسا خسارہ ہوا۔ پہلے عاصمہ جہانگیر ایسی توانا آواز فضا کی بیکرانیوں میں گم ہوگئی، پھر پاکستان سے روبینہ سہگل گئیں۔ ابھی ان کی رخصت کو چند دن ہوئے تھے کہ ہندوستان سے کملا بھسین کے جانے کی خبر آئی۔
یہ تینوں عورتیں صرف حقوق نسواں کی نہیں، حقوق انسانی کی بات کرتی تھیں۔ یہ ہرکمزور طبقے کے ساتھ تھیں۔ وہ کسان ہوں، مزدور ہوں، طلبا ہوں یا آدی واسی، بچیاں ہوں یا بچے، ان لوگوں کا جانا ہم سب کا بہت بڑا نقصان ہے۔ یہ اس خطے میں امن کا نقصان ہے، یہ تینوں خطے میں امن قائم کرنے کے لیے بہت سرگرداں اور سرگرم تھیں۔
روبینہ سہگل ایک عالم، دانشور اور لکھاری تھیں۔ مزاحمت ان کا طرۂ امتیاز تھا۔ جنرل ضیا الحق کے زمانے میں وہ بڑی ہوئیں اور ہر ہر قدم پر آمریت کے خلاف مزاحمت کی۔ وہ نیلم حسین کے ادارے "سیمرغ" کے ایڈوائزری بورڈ میں تھیں۔ اجوکا تھیڑکی بانی رکن تھیں۔ WAF قائم ہوئی تو وہ اس کی بھی بنیاد گزاروں میں سے ایک تھیں۔ پاکستان جہاں عورت، مزدور اور کسان کے علاوہ تمام طبقات کے حقوق کی لڑائی ابھی مکمل نہیں ہوئی، وہاں روبینہ کا یوں چلا جانا پاکستان کے کمزور طبقات کا عظیم نقصان ہے۔ وہ ترقی پسند تحریک سے جڑی ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر مبارک کے ادارے " تاریخ " کے لیے انھوں نے بعض نہایت اہم مضامین لکھے اور ہماری نئی نسل کو ریاست، صنف اور قومیت کا رشتہ سمجھایا۔
روبینہ سہگل نے اپنی ابتدائی تعلیم کنیرڈ کالج، لاہور سے حاصل کی۔ 1982 میں انھوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے ڈیولپمنٹل سائیکلوجی میں ایم اے کیا اور 1998 میں راچسٹر یونیورسٹی سے ایجوکیشن اور ڈیولپمنٹ میں پی ایچ ڈی کیا۔ انھوں نے تعلیم اور عورتوں کی ترقی پر متعدد عالمانہ مضمون لکھے۔ ان کی کئی کتابیں انگریزی اور اردو میں شایع ہوئیں۔ روبینہ ایک دلدار دوست تھیں میرے لیے ان کے گھر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہے۔ لاہور میں لالہ رخ اور روبینہ کے گھر میں ٹھہرنا اور ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونا میرے لیے روزمرہ تھا۔
ان سے جمہوریت، آمریت اور مزاحمت پر لمبی لمبی باتیں۔ ملک میں چیف جسٹس کی بحالی کے لیے مہم چلی تو وہ، فرزانہ اور لالہ رخ کے علاوہ متعدد دوست اس میں شریک تھیں۔ روبینہ ہر دو تین گھنٹوں بعد نیوز بلٹین سناتیں۔ انھیں اور مجھے پرانے گیت بے حد پسند تھے۔ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ روبینہ جیسی عالم فاضل دانشور اتنی من موہنی آواز رکھتی ہے۔ فرزانہ لاہور کی سڑکوں پر فراٹے سے گاڑی اڑاتیں اور روبینہ کی آواز ہمیں پرانے زمانوں میں لے جاتی۔ ہم دونوں نے ہندوستان کا سفر اکٹھے کیا۔ امن کے لیے نعرے لگائے۔
وہ "روشن خیال" کی مجلس ادارت میں شامل تھیں۔ تعلیم اور جمہوریت کے حوالے سے ان کے کئی مضامین "روشن خیال" میں شایع ہوئے۔ روبینہ ایک باغ و بہار شخصیت تھیں۔ لطیفے سنانے میں ان کا ثانی نہ تھا۔ اپنی دوست فرزانہ کا کینسر انھوں نے بہت حوصلے سے جھیلا، ہم لوگ پریشان رہتے تھے کہ اگر فرزانہ کو کچھ ہوگیا تو روبینہ کیسے زندگی کو جھیل پائیں گی۔ اچانک دونوں کو، کورونا نے گھیر لیا۔ فرزانہ چند دنوں میں ٹھیک ہوگئیں۔ روبینہ کی طبیعت زیادہ بگڑی، انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کیا گیا اور پھر وہ وہیں سے رخصت ہوئیں۔
روبینہ سہگل اور کملا بھسین (Bhaseen) گزشتہ کئی دہائیوں سے دوست تھیں۔ دلی اور لاہور کے درمیان فاصلہ ہی کتنا ہے۔ پیدل سرحد عبورکر لینا اور عورتوں اور مظلوموں کے حقوق کے ساتھ ہی پاکستان اور ہندوستان کے درمیان امن قائم کرنے کی کوششیں، روبینہ اورکملا دونوں کا مسئلہ تھا۔ کملا نے روبینہ کے جانے کی خبر کا صدمہ بہت محسوس کیا ہوگا۔ یوں بھی چند مہینوں سے وہ کینسر کو جھیل رہی تھیں اور سمجھ رہی تھیں کہ شاید اب اوپر ہی ملاقات ہو۔
کملا بھسین 1946 میں پنجاب کے ضلع منڈی بہاء الدین میں پیدا ہوئیں۔ بٹوارا ہوا تو ان کا خاندان نقل مکانی کرکے راجستھان چلا گیا۔ کملا نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، امریکا چلی گئیں۔ وہاں اقوام متحدہ میں ایک بڑے عہدے سے منسلک ہوگئیں۔ 1970 کی دہائی میں گھر کی یاد نے ستایا تو اقوام متحدہ میں اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے کر ہندوستان کا رخ کیا۔ دلی پہنچ کر انھوں نے اپنی تنظیم "سنگت" بنائی اور اس میں عورتوں، کسانوں، دلتوں، مزدوروں اور کچلے ہوئے تمام طبقات کے حقوق کے لیے جدوجہد شروع کی۔
1980 کی دہائی تھی جب وہ پاکستان آئیں۔ ضیا الحق کی جابرانہ آمریت کا دور دورہ تھا۔ تمام سیاسی جماعتیں اور لیڈر خاموش بیٹھے تھے۔ ایسے میں ایک مذہبی رہنما نے عورتوں کو گھر میں بند کرنے کا نعرہ لگایا۔ پاکستانی عورتیں ڈاکٹر اسرار احمد کی اس بات پر برافروختہ ہوگئیں اور انھوں نے اپنے حقوق کی خاطر جدوجہد شروع کر دی۔
کملا جب دلی سے لاہور پہنچیں تو انھوں نے پاکستانی عورتوں کو "آزادی" کا نعرہ لگاتے سنا۔ یہ اس وقت ایک غیر سیاسی نعرہ تھا، لیکن چشم زدن میں ایک انقلابی اور سیاسی نعرہ بن گیا۔ کملا بھسین کو اس نعرے نے بہت متاثر کیا اور لاہور سے جب وہ کولکتہ پہنچیں تو وہاں جادو) (jabavیونیورسٹی میں ایک سیمینار میں شرکت کی اور اس انداز میں سامنے آئیں کہ وہ ایک چھوٹی سے ڈھولکی اٹھائے ہوئے تھیں اور "آزادی" کا نعرہ لگا رہی تھیں۔ انھوں نے بہ آوازِ بلند یہ نعرہ لگایا۔
عورتوں کا نعرہ آزادی
بچوں کا نعرہ آزادی
ہے پیارا نعرہ آزادی
ہم لے کے رہیں گے آزادی
آزادی کا یہ گیت کملا نے مزدوروں، دلتوں، آدی واسیوں اور ہر مجبور کے لیے گایا۔ کملا صرف لیکھک نہیں شاعر تھیں۔ انھیں ذرا سی بھی مشکل نہیں ہوئی کہ وہ آزادی کے اس نعرے کو ہندوستان، پاکستان اور تمام دنیا کے مجبوروں کی آزادی کا نعرہ بنادیں۔ انھوں نے کہا:
پدر شاہی سے آزادی، بالادستی سے آزادی
تشددسے آزادی، بے بسی کی خاموشی سے آزادی
اپنے اظہار کی آزادی، جشن منانے کی آزادی
کسان کا نعرہ آزادی، مزدور کا نعرہ آزادی
بیماری سے لیں گے آزادی، ذرا زور سے بولو آزادی
چند برس پہلے کملا بہت بیمار تھیں، چند قدم چل نہیں سکتی تھیں۔ ایک کانفرنس میں شرکت کرنے وہیل چیئر پر آئیں۔ انھوں نے بہ آواز بلند لوگوں کو یہ آزادی کا گیت سنایا تو سارا مجمع ان کے ساتھ آواز ملاکر آزادی کا گیت گا رہا تھا۔
وہ پاکستان اور ہندوستان کے غریبوں، عورتوں، مزدوروں اور کسانوں کو ان کی بھک مری اور غربت سے آزاد کرنا چاہتی تھیں۔ یہ ایک نہایت سہانا خواب تھا اور آج بھی ہے۔ انھوں نے کہا:
میں سرحد پہ کھڑی دیوار نہیں
اس دیوار پر پڑی دراڑ ہوں
وہ 26 اپریل کو پیدا ہوئیں اور 25 ستمبر کو دوسری دنیا سدھار گئیں۔ وہ اپنے حصے کا یا شاید اس سے بھی زیادہ کام کرگئیں۔ اب یہ ان کے بعد والوں کا کام ہے کہ وہ اسے آگے بڑھائیں۔ چراغ سے چراغ جلائیں۔