ہم اگر تاریخ کی گہرائیوں میں جا کر دیکھیں تو زبانی روایات کے مطابق پشتوکے آثار ہمیں پانچ ہزار برس پرانے ملتے ہیں لیکن ساتویں صدی میں امیرکرور سوری اورپھر 1526 سے 1574 کے درمیان پیر روشن کی صوفی روایات ملتی ہیں۔ اس کے بعد ارزانی، مخلص، مرزا خان انصاری، کچھ عرصے بعد خوش حال خان خٹک، غنی خان، حمزہ بابا، اباسین یوسف زئی، احمد شاہ بابا، عبدالحئی حبیبی اور دوسرے بہت سے ادیبوں اور شاعروں کے نام آتے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک بڑا نام سلیم رازکا ہے، جو ابھی چند مہینوں پہلے ہم سے جدا ہوئے ہیں۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ان سے پہلی ملاقات 1986 کی گولڈن جوبلی کانفرنس میں ہوئی جو زندگی کے آخری دنوں تک جاری رہی۔ کبھی کسی سیمینار، کبھی کراچی یا دہلی اورکسی دوسرے شہر میں منعقد ہونے والی ادبی محفل میں۔
وہ ایک ایسے ادیب تھے جنھوں نے ابتدا میں سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیا لیکن 2002 کے بعد وہ کسی سیاسی جماعت سے وابستہ نہیں رہے۔ وہ ایک سرگرم ترقی پسند ادیب تھے اور اس حوالے سے انھوں نے پاکستان، ہندوستان اور افغانستان میں متعدد کانفرنسوں اور سیمیناروں میں شرکت کی۔ انھوں نے آمریت کے خلاف مسلسل لکھا اور جمہوریت، دنیا میں بہ طور خاص برصغیر میں امن کے لیے جدوجہد کی۔ پشتو میں جمہوری اور ترقی پسند تحریروں کی ہمیشہ پذیرائی رہی ہے۔ اسی لیے سلیم راز ابتدا سے ہی اس جدوجہد سے جڑے ہوئے تھے۔ انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی دیا گیا اس کے علاوہ درجنوں ایوارڈ ان کے حصے میں آئے۔ جس میں 2017کا لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ شامل ہے، جو انھیں انجمن ترقی پسند مصنفین پنجاب کی طرف سے دیا گیا۔
وہ مختلف اخباروں سے وابستہ رہے اور ان کے کالم اور مضامین پشتو اور اردو پڑھنے والوں میں بہت مقبول تھے۔ وہ نو عمری سے ہی قوم پرستی کے رجحانات سے جڑے رہے۔ بچپن سے انھیں ان پریوں کی کہانیاں بہت دلچسپ محسوس ہوتیں جن میں دیو اور جنات انھیں قید کرکے اپنے قلعے یا محل میں محصور رکھتے تھے۔ اسی راستے سے وہ ترقی پسند خیالات سے بھی جڑے۔ عوام استحصالی طبقات کی قید میں تھے اور وہ ان کو اس قید سے آزاد کرانے کے لیے ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے، جس کا مقصد کچلے اور پسے ہوئے عوام کو دیو استبداد سے آزاد کرانا تھا۔ اپنے بچپن کو یاد کرتے ہوئے ان کے ذہن کے پردے پر کسی سین کی طرح چلتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد پولیس کے ہاتھوں سرخپوش کارکنوں کو جس بے دردی سے پیٹا جاتا تھا اور بید لگتے وقت جو چیخ و پکار کانوں میں پڑتی تھی اس سے میرے دل و دماغ اور اعصاب پر پڑی ہوئی ضربیں اور دکھ درد کے نشان تازہ زخموں کی مانند ہیں اس دکھ اور اذیت کو میں آج بھی اپنے سینے میں محسوس کرتا ہوں۔
روخان یوسف زئی اکادمی ادبیات پاکستان کی سیریز " پاکستانی ادب کے معمار " میں لکھتے ہیں کہ سیاسی رہنما اجمل خٹک اور معروف ترقی پسند دانشور اور محقق قلندر مومند سے وہ اس قدر متاثر ہوئے کہ پھر وہ ان کی شخصیت اور علمیت کے سحر سے تاعمر باہر نہ نکل سکے۔ ان ہی ادیبوں اور دانشوروں کی اکساہٹ پر وہ ترقی پسند رسالوں اور کتابوں کا مطالعہ کرتے رہے۔ پختون متحدہ محاذ انھوں نے خان عبدالولی خان کے مشورے اور اجمل خٹک کی رہنمائی میں بنائی۔
پختون متحدہ محاذ کے قیام سے کراچی میں رہنے والے پختون خصوصا نوجوان تعلیم یافتہ طبقہ اپنے حقوق کے حصول کے لیے سیاسی جدوجہد کرنے لگے اور جمہوریت کی خاطر دیگروں قوموں سے یکجہتی کو فروغ اور اپنے سیاسی شعور کا ثبوت دیتے رہے۔ اس بات کا کریڈیٹ بھی سلیم راز اور ان کے ساتھیوں کو جاتا ہے۔ کیونکہ سلیم راز اس محاذ کے جنرل سیکریٹری تھے اورآج کراچی کے پختونوں میں جو سیاسی اور ادبی شعور نظر آتا ہے اس کی بنیادیں اسی پختون متحدہ محاذ نے رکھی تھی۔
وہ پاکستان کمیونسٹ پارٹی کے رہنما امام علی نازش کے بہت قریب رہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد انھوں نے خود کو ٹوٹنے اور بکھرنے نہیں دیا اور آخر وقت تک سوشل ازم کو سائنس سمجھتے ہوئے انھوں نے کہا کہ " سوویت یونین ٹوٹا نہیں، انقلاب پسپا نہیں ہوا اور سوشل ازم ناکام نہیں ہوا۔ یہ تاریخ کے انقلاب اور انقلاب کی تاریخ کا سفر ہے جو ہنوز جاری ہے جو سوشل ازم سے ہوتے ہوئے کیمونزم تک پہنچے گا اور اشتمالیت ہی اس سفرکی منزل اور پوری دنیا کا مقدر ہے۔"
جمہوری ذہن رکھنے والا یہ انقلابی آج بھی روسی انقلاب کو درست سمجھتا ہے، اس کی وقتی پسپائی کو ایک حکمت عملی تصورکرتا ہے۔ انھوں نے اپنی نظم "ایقان" میں اس نئے منظر نامے کی عکاسی اور ترجمانی کرتے ہوئے ایک نئی صبح کی نوید دی ہے۔
سلیم راز کے خیال میں ملک کے تمام مسائل کا واحد حل سیکولر نظام، جمہوری کلچرکے فروغ اور جاگیرداری کے خاتمے میں مضمر ہے۔ سلیم راز چوں کہ عملی سیاست میں رہ چکے ہیں اور ترقی پسند افکار و نظریات کو اپنا کر سیاسی آزادی، سماجی انصاف اور معاشی برابری کی جدوجہد میں پیش پیش رہے ہیں۔ یہاں بھی انھوں نے مارکس ازم کی سائنس کو اپنا رہبر و رہنما بنایا اسی سائنس کی روشی میں اپنی تاریخ اور سماجی زندگی کا مطالعہ کیا اور نئے سماج کی تعمیر اور اپنے عہد کی تاریخی تشکیل میں فکری رہنمائی حاصل کی۔
پیداواری ذرایع اور رشتوں کو تاریخی مادیت کے تناظر میں سمجھا اور اسی طرح جاگیر داری اور سرمایہ داری کے استحصالی نظام کے خلاف عملی مبارزہ کیا اور استحصال سے پاک ایک غیر طبقاتی معاشرے کے قیام کے لیے اپنی فکری، علمی اور عملی توانائیوں سے کام لیا۔ ایک کے بقول مارکسزم ہی ایک انقلابی سائنس اور سچائی کا فلسفہ ہے جو مزدور اور محنت کش طبقے کی نجات کا سیاسی نظریہ اور جنگی ہتھیار ہے اور آج دنیا کو درپیش مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کا علمی نظریہ اور عملی راستہ ہے جو کوئی اندھی عقیدت اور مسلک نہیں جو ہرقسم کی گروہی، قبیلوی، نسلی، لسانی اور فرقہ پرور تنگ نظری، تعصب اور نفرت کے خلاف ہے اور جو امن، برابری اور انسان دوستی کا علمبردار، انسانی عظمت و شرف کا ضامن اور سائنسی صداقتوں کی جمالیات کا عکاس، ترجمان اور نمایندہ ہے۔
وہ " ادب اور جمہوریت" کو ایک دوسرے سے لازم و ملزوم سمجھتے تھے۔ تب ہی انھوں نے لکھا۔"جمہوریت دراصل انسانی معاشرے میں ہزاروں سال سے ہونے والے معرکہ خیر و شر میں خیر کی فتح کی امین ہے کیوں کہ جمہوریت کی تین بنیادی چیزیں " آزادی، مساوات اور اپنی حکومت آپ" جمہوریت عوام کے اقتدار اعلیٰ کی علمبردار ہوتی ہیں۔ جمہوریت رنگ ونسل، زبان و ثقافت، مذہب و جنس، کسی اعتبار سے انسانوں کے درمیان تمیز و تفریق کو قبول نہیں کرتی۔ بلکہ ان تمام تنگ نظریوں، تعصبات اور شاؤنزم کو جو کسی سماجی ناانصافی اور نابرابری کا جواز فراہم کرتا ہو، ذہنی کج روی، گمراہی اور باطل قرار دیتی ہے۔
روخان یوسف زئی بجا لکھتے ہیں کہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ عالمی پشتوکانفرنس ہے۔ جس نے عالمی ادب میں پشتو کے تعارف کی مستحکم بنیاد رکھی، لیکن ہمارے خیال میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ آج کل یہ ہے کہ وہ اچھی خاصی ادبی تقریب میں لمحہ دوران کے سب سے بڑے مسئلے یعنی عسکریت پسندی اور طالبانائزیشن پر ایسے ایسے خیالات کا اظہار کررہے ہیں کہ خوف محسوس ہوتا ہے۔ وہ برملا قلم کاروں کی حمیت کو للکارتے ہیں اور ہر تقریب میں قلم کاروں کی خاموشی کو بڑی بدقسمتی قرار دے کر ایسے لتے لیتے ہیں کہ پیشیانیاں بھیگ جاتی ہیں۔
ہمارے خیال میں اس دور میں ہم سب ذبح ہونے کے خوف کا شکار ہیں۔ جس جرات کا مظاہرے راز صاحب نے شروع کررکھے ہیں وہ قابل داد ہیں۔ ان کے اس طرح کے خیالات سے ثابت ہورہا ہے کہ وہ قلم کاروں کی ایسی پود سے تعلق رکھتے ہیں جنھوں نے حق اظہار کے لیے ہر طرح کی قربانی کو اپنا اعزاز سمجھا تھا۔ راز صاحب ترقی پسند ادب کی علامت ہیں، اگر اس صوبے کے ترقی پسند ادب میں نمایاں طور پر مذکور نہ کیا جائے تو یہ دیانت علمی کے خلاف ایک فعل ہوگا۔ سلیم راز نے زندگی کے جتنے بھی دن گزارے وہ اپنی قوم، ادب اور دنیا میں ایک منصفانہ نظام کے رائج کرنے کی خواہش اور کوششوں میں گزارے۔ وہ چلے گئے لیکن اپنے پیچھے ایک روشن روایت کو چھوڑ گئے۔