آج کل کئی لوگوں کی جانب سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ ہمیں ماضی کو دفن کرکے آگے کی جانب بڑھنا چاہیے، ہم ماضی میں قید رہ کر ترقی نہیں کرسکتے۔
یہ بات اس لحاظ سے درست ہے کہ اپنی آج کی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ماضی کی" عظمت" کا سہارا نہیں لینا چاہیے، لیکن اس مسئلے کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے چوں کہ ہم نے ماضی میں ایسی غلطیاں کی ہیں جن کا اعتراف کرنا ہمارے لیے آسان نہیں ہوتا لہٰذاہم تاریخ اور ماضی کو دفن کرنے کا رویہ اختیار کرتے ہیں۔ اس سچ کو ماننا ہوگا کہ تاریخ ہمیں آئینہ دکھاتی ہے اور یہ پیغام دیتی ہے کہ مستقبل میں وہ غلطیاں نہ کی جائیں جو ہمارے لیے تباہی کاسامان پیدا کریں۔
عہد نامہ قدیم پڑھ جائیے تو ابتدا سے آخر تک تاریخ کا قصہ ہے اس کے ابواب میں گم شدہ قبیلوں اور قوموں کی تاریخ ہمیں اپنا چہرہ دکھاتی ہے۔ ان غلطیوں کی نشاندہی کرتی ہے جو بعض قوموں سے ہوئیں اور جس کے نتیجے میں وہ نابود ہوئیں۔ عہدنامہ قدیم کا ایک صحیفہ جو دنیا کے کلاسیکی ادب میں شمار کیا جاتا ہے وہ "نوحہ" ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اسے یرمیاہ نبی نے دربہ دری کے دوران لکھا۔ اور اسی عہدنامہ قدیم کا ایک صحیفہ "زبور" ہے جس میں "اسیروں کا نوحہ" ہے۔ اسیروں کا یہ نوحہ "ہم بابل کی ندیوں پر بیٹھے اور صیون کو یاد کرکے روئے " 1970کی دہائی میں بونی ایم نے گایا تو وہ دنیا کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ یہ وہی نوحہ ہے جسے یہودیوں نے اتنی مرتبہ دہرایا کہ ڈھائی ہزار برس بعد وہ صیون کی سرزمین پر اپنی ایک مملکت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ہم اور ہمارے حاکم کہتے ہیں کہ سقوط ڈھاکا کی تاریخ کو بھلا دینا چاہیے، یرمیاہ نبی نے سقوط یروشلم پر نوحہ کرتے ہوئے لکھا تھا:
یروشلم کے سقوط، اس کی تباہی، اسرائیلیوں کی اسیری اور ان کی در بہ دری کو ان کے دانشور اگر "بھلا دی جانے والی ذلت" قرار دے کر اپنے لوگوں کو یہ نکتہ تعلیم کرتے کہ شکست کے معاملات کا بھلادیا جانا ہی بہتر ہے تو آج یہودی تاریخ کا ایک گم شدہ ورق ہوتے۔
ماضی قریب میں جائیں تو دیکھتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے شکست خوردہ جرمنی نے صلح نامہ ورسائی کی ذلت آمیز شرائط کو اگر " تاریخ کا حصہ " قرار دے کر فراموش کر دیا ہوتا تو کیا صرف بیس برس کے اندر وہ پھر ایک عظیم عسکری قوت بن کرابھر سکتا تھا اور دوسری جنگ عظیم کے آغاز کی جرات کرسکتا تھا؟
جرمن قوم نے اپنی قوت، اپنی بدترین شکست سے کشید کی تھی۔ اس طرح ہم دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی الم ناک شکست کو دیکھتے ہیں۔ جاپانیوں نے اگر "تاریخ کو بھلانے " کا رویہ اختیار کیا ہوتا اور اپنی شکست کو " تاریخ کا حصہ " سمجھ کر اپنے روزمرہ معمولات میں مصروف ہوجاتے تو آج وہ دنیا کی اہم ترین صنعتی اور اقتصادی قوت نہ ہوتے۔
بیسویں صدی کی آخری دہائیوں میں سامنے آنے والا ایک امریکی دانشور پال کینیڈی اپنی کتاب "عظیم طاقتوں کا عروج وزوال" میں جب اختتامیہ لکھنے بیٹھتا ہے تو اول تو یہ بات ہمارے سامنے رکھتا ہے کہ صرف ماضی بعید ہی نہیں ماضی قریب بھی تاریخ کا درجہ رکھتا ہے۔ دوسری بات وہ یہ کہتا ہے کہ مستقبل کو جاننے، سمجھنے اور اس کے بارے میں اندازے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ماضی پر نظر ڈالی جائے اور یہ دیکھا جائے کہ گزشتہ پانچ صدیوں میں بڑی طاقتیں کس طرح عروج و زوال سے آشنا ہوئیں۔
اگر ہم تاریخ سے سیکھنے کا رویہ رکھتے تو ہمیں یاد رہتا کہ ہندی اور صرف ہندی پر اصرار نے برصغیر کو تقسیم کرانے میں ایک بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ اگر ہم یہ بات ذہن میں رکھتے تو 1948 اور پھر 1952میں پاکستان میں کبھی بھی اردو اور صرف اردو کو قومی زبان قرار دینے پر اصرار نہ کرتے۔ بنگلہ کو اس کا جائز حق دیتے جو کہ بالآخر دینا ہی پڑا تھا اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان لسانی نفرتوں کی بارود نہ بچھتی۔
اگر ہم نے تاریخ کے اس پہلو کو یاد رکھا ہوتا تو سندھ میں 1972 کے وہ لسانی فسادات رونما نہ ہوتے جنھوں نے سندھی اور اردو بولنے والوں کی طاقت کو تقسیم کردیا اور جس کے نتیجے میں آپسی محبت اور بھائی چارے کی فضا مغموم ہوئی اورسندھی اور اردو بولنے والے دست و گریباں رہے۔
ہم نے اگر تاریخ کو دفن کردینے کا رویہ اختیار نہ کیا ہوتا تو ہم 24اکتوبر 1953کو پاکستان کی پہلی قانون ساز اسمبلی کی تحلیل اور اس کے نتائج کو یاد رکھتے تو ہم طالع آزماؤں کے ہاتھوں اسمبلیوں کی تذلیل اور تحلیل کا تماشا نہ دیکھتے اور پاکستان وہاں نہ پہنچتا جہاں آج پہنچ چکا ہے۔
ہم نے سوویت یونین کی تحلیل سے یہ نہیں سیکھا کہ اگر کسی سپر پاور کے شہریوں کو مہنگائی، کھانے پینے کی اشیاء کی کمیابی اور آزادئ اظہار پر پابندی نے پریشان کر رکھا ہو تو ایسے ملک اپنے اسلحہ خانوں میں روایتی اور نیوکلیائی اسلحے کے ڈھیر رکھنے کے باوجود عوامی غیظ و غضب کے سامنے ڈھیر ہوجاتے ہیں۔ اناج سے چھلکتے ہوئے گودام، حکومت کا بہتر نظام اور انصاف کا اہتمام لوگوں کو جوڑکر رکھتا ہے، اپنی حکومتوں پرتنقید لوگوں کو حکومت میں شریک رہنے کا احساس دلاتی رہتی ہے اور ذہن اور بدن کی یہی سیری " حب وطن کا سریش " بن جاتی ہے، ملکوں کو جوڑ کر رکھتی ہے۔
بڑے دانشوروں اور تاریخ دانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تاریخ کے بہاؤ کو جب بھی کسی مخصوص مفاد والے نظریے کے مطابق رکھنے یا اس کے دھارے کو موڑنے کی کوشش کی گئی ہے تو اس نے ایسی تمام کوششوں کی ہنسی اڑائی ہے، تاریخ کو جب بھی جبری اور غیر فطری طور پر بھلانے کی کوشش کی گئی ہے تو وہ کسی پچھل پائی کی طرح اچانک دھم سے کود کر ہمارے سامنے آگئی ہے۔ تاریخ قوموں کا مجموعی نامہ اعمال ہے۔ اس سے سیکھا تو جاسکتا ہے، اس سے جان نہیں چھڑائی جاسکتی۔
اگر ہم نے تاریخ کو فراموش کرنے کا رویہ اختیار نہ کیا ہوتا تو ہمیں یہ اچھی طرح معلوم ہوتا کہ ملک طاقت سے نہیں مفاہمت سے چلتے اور آگے بڑھتے ہیں، اتنہا پسندی کی جگہ تحمل اور بردباری کی ضرورت ہوتی ہے، لوگوں کو ایک دوسرے سے جوڑا جاتا ہے، سب کے مفادات کا خیال رکھا جاتا ہے۔
تاریخ کو یاد رکھا جاتا تو کیا ہم اس بنیادی نقطے کو فراموش کرسکتے تھے کہ پاکستان کو مسلم اکثریتی صوبوں نے بنایا تھا لہٰذا وفاقیت اس ملک کے وجود کے لیے ناگزیر ہے۔ وفاقی نظام کا تحفظ دراصل پاکستان کا تحفظ ہے۔ تاریخ سامنے ہوتی تو ہمیں معلوم ہوتا کہ پاکستان ووٹوں کے ذریعے تشکیل پایا تھا۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ لیں کہ یہ ملک جمہوری عمل کا نتیجہ تھا۔ اس لیے جمہوری عمل ہمارے ملک کے لیے روح کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ نکتہ پیش نظر ہوتا تو وہ کچھ نہ ہوتا جو 1971 میں ہوا تھا۔
تاریخ کامعروضی مطالعہ بتا سکتا ہے کہ 21 ویں صدی کیا تاریخ رقم کرنے جارہی ہے۔ ہم اگر یہ جان لیں تو ہماری بہت سی مشکلیں آسان ہوسکتی ہیں۔ نئی صدی کا پہلا پیغام یہ ہے کہ اب جنگ و جدل کا زمانہ گزر چکا۔ جو ملک تنازعات میں الجھے رہیں گے عالمی تنہائی اور معاشی بدحالی ان کا مقدر ہوگی۔ امریکا نے یہ نقطہ سمجھ لیا اور افغانستان سے نکل گیا۔ اسے کیا کیا طعنے نہیں دیے گئے، لیکن اسے معلوم تھا کہ اربوں ڈالر سالانہ جنگ لڑنے سے مشکل میں گھری اس کی معیشت بیٹھ جائے گی اور وہ عالمی معاشی طاقت بھی نہیں رہے گا۔ جنگ اور بھاری مالی اخراجات سے بچنے کے لیے کوئی دوسرا ملک افغانستان میں امریکا کی جگہ لینے اور اربوں ڈالر جھونکنے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ہمیں چاہیے کہ ہم تاریخ کو بار بار پڑھیں، اپنی غلطیوں کا ادراک کریں۔ تاریخ کی روشنی اور رہنمائی میں مستقبل کی سمت کا تعین کریں جو ہم اب تک نہیں کرسکے ہیں۔