وہ مارچ کا آخری ہفتہ تھا اور رات کا پہلا پہر جب میرے موبائل کی گھنٹی بجلی۔ دوسری طرف سے ایک جانی پہچانی مگر ناراض آواز آئی۔ میں نے تو "زاہدہ" لکھا تھا، اس نے "شاہدہ" کیوں لکھ دیا؟ میں نے ان سے کہا "اجی! اس بات کو معاف کر دیجیے کہ اس نے غلطی سے زاہدہ کے بجائے شاہدہ لکھ دیا۔ خوش اس بات پر ہوں کہ اس نے پیغام درست پتے پر پہنچا دیا۔ "
میرا یہ جملہ سن کر وہ ہنس دیں، یہ رضیہ فصیح احمد تھیں۔ ہمارے ادب کا ایک اہم نام۔ غیر منقسم ہندوستان کے شہر مراد آباد میں پیدا ہوئیں۔ پڑھنے لکھنے کا شوق بچپن سے تھا۔ نہ ہوتا تو اس راہ پر کیوں پڑتیں جس پر چلتے ہوئے ان کے پیر لہو لہان ہوئے اور جس نے انھیں سماج میں ایک اہم اور ممتاز مقام پر فائز کیا۔ انھوں نے ابتدا ہی سے قارئین اور مدیروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی۔ شادی ان کی خاندان میں ہوئی۔ لیفٹیننٹ کرنل فصیح الدین احمد ایک بھلے مانس تھے لیکن ادب سے ان کا رشتہ ناتا نہیں تھا۔ وہ اپنی بہنوں، بھاوجوں کا ذکر بڑے اہتمام سے کرتے جو نہایت خوب صورت کُرتے کاڑھتیں اور سویٹر بُنتیں۔
یاد رہے کہ اب سے نصف صدی پہلے کُرتے کاڑھنا اور سویٹر بُننا ایک نہایت رومانوی کام سمجھا جاتا تھا۔ رضیہ آپا آدم جی ایوارڈ لے کر بھی اس غم میں گرفتار رہتیں کہ فصیح کی بہنوں اور بھاوجوں کے ہاتھوں میں کیا جادو ہے کہ وہ اتنی کمال چکن کاری کرتی ہیں۔ وہ اپنی آنکھیں دوپٹے کے کونے سے خشک کرکے لکڑی کے فریم ڈھونڈنے لگتیں جن میں فصیح کے کُرتے کا گریبان فکس کرکے اس پر کڑھائی کرسکیں۔ انھیں کوئی یہ بتانے والا نہ تھا کہ رضیہ بی بی تم جو کچھ لکھتی ہو، ان بھاوجوں اور بہنوں سے کہو کہ اس لب و لہجے میں دو چار خط تو لکھ دو، لیکن کوئی ان سے یہ کیوں کہتا۔
ان کا ناول "آبلہ پا" اور ان کے درجنوں افسانے میں پڑھ چکی تھی، تب ان سے ملاقات ہوئی۔ کراچی میں رائٹرز گلڈ کے انتخابات ہونے والے تھے، جانے کس نے انھیں انتخابات میں حصہ لینے پر آمادہ کرلیا۔ میں رائٹرز گلڈ کے دفتر پہنچی تو کسی نے مجھے دروازے پر ہی یہ خوش خبری سنادی کہ رضیہ فصیح احمد بھی آئی ہوئی ہیں اور انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔
وہ ان کی اور میری ملاقات کا پہلا دن تھا۔ اس کے بعد ہماری دوستی آہستہ آہستہ پروان چڑھتی رہی۔ میں انھیں لے کر اڑی اڑی پھرتی۔ وہ میری آزاد روی پر رشک کرتیں اور میں انھیں آزاد ہونے کے مشورے دیتی لیکن آہستہ آہستہ مجھے اندازہ ہوا کہ چھاؤنی سے نکل کر بھی وہ آزاد نہیں ہو سکتیں۔ فصیح بھائی اب ریٹائر ہو چکے تھے۔ بیٹے جوان ہو چکے تھے، ایرج میاں بھی بڑے ہوگئے تھے۔ وہ ناول اور افسانے لکھتی رہیں۔ دوسرے لکھنے والوں کی طرح انھیں بھی "آگ کا دریا" پر رشک آتا تھا۔ انھوں نے "صدیوں کی زنجیر" لکھی۔ اس کا اس طور خیر مقدم نہ ہوا جس کی رضیہ آپا کو امید تھی، لیکن وہ بھی کارِ فرہاد کرنے سے کہاں باز آتیں۔ کمر کس کر بیٹھیں اور "صدیوں کی زنجیر" کا ترجمہ انگریزی میں کر ڈالا۔
اس کی خبر رخشندہ جلیل کو ہوئی۔ انھوں نے رضیہ آپا سے رابطہ کیا اور پھر اسے بنگلہ دیش کے بارے ایک انتھالوجیمیں شامل کرلیا۔ رضیہ آپا بہت خوش ہو کر یہ خبر مجھے سنا رہی تھیں۔ میں نے انھیں مبارک باد دی۔ انھوں نے جس محبت اور مشقت سے اپنے ناول لکھے، وہ بھی میں نے دیکھے ہیں۔ اس رات ہم دونوں نے شاید ڈیڑھ یا دو گھنٹہ بات کی۔ وہ اپنے ناول "زخمِ تنہائی" کو یاد کرنے لگیں۔ وہ ان کا ایک ایسا ناول ہے جو اردو میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے بارے میں وہ لکھتی ہیں:
"1970 کی دہائی میں مجھے مسز گیسکل کی لکھی ہوئی شارلٹ برانٹے اور اس کی بہنوں کی سوانح پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ان کے بچپن کے حالات پڑھ کر لگا کہ کچھ اپنے سے حالات ہیں کہ بچپن میں ہم بھی اسی طرح کھیتوں کھیتوں پھرا کرتے تھے، کتابیں پڑھا کرتے اور تصویریں بنایا کرتے تھے۔ سوچا، کیوں نہ ان کی زندگیوں پر ناول لکھا جائے۔
اسی وقت سے نوٹ لینے شروع کیے۔ 1976 میں انگلستان جانا ہوا تو بطورِ خاص ان کے گاؤں ہاورتھ گئے، کئی دن ٹھہرے اور نوٹس اور تصویریں لیں۔ جون میں اس گاؤں کی حالت کچھ بہتر تھی، ٹورسٹوں کا ہجوم تھا مگر ہاورتھ کا گھر، ملحق قبرستان، سڑکیں، مورز اور برانٹے آبشار ویسا ہی تھا جیسے ڈیڑھ سو سال پہلے تھا۔ وہ کاؤچ موجود تھا جس پر ایملی نے دم توڑا تھا۔ مسٹر برانٹے کی کتابیں چشمے، چھڑی، برانٹے بہنوں کے کاڑھے ہوئے کپڑوں کے ٹکڑے، ان کے قلم دان، سوئی دان، لباس، جوتے دستانے بھی تھے۔
ایک کرسی پر شارلٹ منہ دوسری طرف کیے اپنے بھورے لباس میں بیٹھی تھی۔ ظاہر ہے کہ پتلا تھا مگر پشت سے یوں ہی لگتا تھا کہ شارلٹ ہے۔ اس کے پتلے پتلے جوتے اور دستانوں سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ لڑکی کتنی مختصر رہی ہوگی۔ بہرحال ناول لکھنے کا ارادہ پختہ ہو گیا۔ واپس آن کر کام بھی شروع کردیا۔ انگلستان میں پڑھنے والا بیٹا اور دوست احباب جہاں کچھ ان کے بارے میں پڑھتے فوراً تراشہ مجھے بھیجتے۔ ان کے بارے میں جتنی کتابیں لکھی گئی تھیں وہ اور شارلٹ کے خطوط پڑھ کر اپنا ایک زاویۂ نظر بنا، سو لکھنا شروع کیا۔ کچھ لکھ لینے کے بعد اُردو ٹائپ رائٹر پر اسے صاف کرنا شروع کیا۔ اس دوران افسانے بھی چلتے رہے۔
چھاؤنی کی زندگی چھوڑ کر کراچی میں آگئی تھی سو خانگی کام اور دوستوں سے میل ملاپ بھی بڑھ گیا تھا۔ اسی زمانے میں ایک بہت مشہور لکھنے والے صاحب کو جب میں نے اپنے ناول کے بارے میں بتایا تو انھوں نے کہا، اُردو میں اس ناول کو کون پڑھے گا! پچاس سال میں تو اُردو باقی ہی نہیں رہے گی، وہ خود ان دنوں غالباً ڈپریشن کا شکار تھے جو میں اس وقت نہیں سمجھی۔ اور ان کے کہنے پر انگریزی میں کوشش کی مگر جلد اندازہ ہوا کہ برانٹے بہنوں نے جو سوانحی انداز کے ناول لکھے ہیں ان کے مقابلے پر آنا چہ معنی دارد۔ سو اب کام رُک گیا اور رُکا رہا۔
1985 میں بیٹے کے بلانے پر چند ماہ کے لیے امریکا آئی تو ظاہر ہے کہ وہ نوٹس نہیں لائی، مگر پھر یہیں رہنا ہو گیا۔ جب دوبارہ کراچی جانا ہوا تو میں نے چرمی نوٹس بک سے، دوسری کاپیوں سے لکھے ہوئے صفحات پھاڑے، ٹائپ شدہ کاغذات سنبھالے اور انھیں امریکا لے آئی۔ پھر وہی حیث بیث کہ اُردو میں لکھا جائے یا انگریزی میں۔ کئی اُردو دانوں سے بات ہوئی اور انھوں نے کہا بے شک اُردو میں لکھئے سب ہی ان بہنوں کے نام جانتے ہیں، ان کے ناول کورس میں رہے ہیں مگر ان کی زندگیوں کے بارے میں لوگوں کی معلومات کم ہیں۔