Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Zahir Akhter Bedi/
  3. Ahal e Qalam, Ahal e Danish

Ahal e Qalam, Ahal e Danish

ہر ملک میں ادیب ہیں، شاعر ہیں، دانشور ہیں، فنکار ہیں، لیکن دنیا کے اجتماعی مسائل پر یہ حضرات کچھ بولتے نہیں، اگر بولتے ہیں تو اس کا ابلاغ نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے تو ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کے عوام کے اجتماعی مسائل کے حل کے حوالے سے یہ حضرات اپنی دانشورانہ رائے دیں اور عوام کو سوچنے سمجھنے کا موقعہ فراہم کریں۔

ویسے تو اس حوالے سے بے شمار مسائل ایسے ہیں جنھیں زیر بحث لایا جانا چاہیے لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا نہیں۔ اس حوالے سے ہونا یہ چاہیے کہ کسی فورم کو یہ ذمے داری دی جائے کہ وہ دنیا کے انسانوں کو ایک دوسرے سے دور لے جانے والے ایک دوسرے سے متنفر کرنے والے مسائل کو اجاگر کریں اور دنیا کے اہل الرائے یعنی مفکروں، دانشوروں، ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں کو ترغیب فراہم کریں کہ وہ بلاتخصیص مذہب ملت اس حوالے سے اپنی رائے دنیا کے سامنے خاص طور پر اہل الرائے کے سامنے پیش کریں اور انھیں ترغیب فراہم کریں کہ دنیا کے عوام کے ایسے مشترکہ اور نازک مسائل کے حل کے حوالے سے اپنی رائے یا تجاویز پیش کریں۔ دنیا میں ایسی بڑی اور صاحب وسائل تنظیمیں ہیں جو اس کام کو آگے بڑھانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔

مثال کے طور پر "مذہب" کو لے لیں دنیا میں مختلف مذاہب ہیں لیکن مذاہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ اس حوالے کسی فرد افراد یا جماعت نے دنیا کے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے دلوں سے غلط فہمیاں تعصبات اور نفرتیں نکال کر ان کے دلوں میں رواداری اور بھائی چارہ پیدا کرنے کی بڑے پیمانے پر منظم کوشش شاید نہ کی اگر کی ہے تو وہ پوری دنیا کی سطح پر شاید نہ کی۔ ویسے اس حوالے سے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ یعنی مذہب کا مسئلہ ایک بہت نازک اور بے حد حساس مسئلہ ہے اور اس مسئلے پر بے حد محتاط ہو کر اپنی رائے دینے کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سے کوئی ایسی راہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو کسی کے جذبات مجروح نہ ہوں اور انسانوں کے درمیان مذہبی رواداری اور برداشت کا جذبہ بیدار اور پیدا کیا جاسکے۔

اسی تناظر میں ادب اور شاعری نے بہت مثبت کردار ادا کیا ہے خاص طور پر تقسیم ہند کے نتیجے میں عوام کے درمیان جو نفرتیں اور عداوتیں پیدا ہوئی تھیں اور لاکھوں بے گناہ انسان یا ہندو مسلمان ان نفرتوں کا شکار ہوئے تھے ان کو کم یا ختم کرنے میں ادیبوں شاعروں اور فنکاروں نے بہت موثر کردار ادا کیا تھا۔

اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک عمومی عقیدے کے مطابق ساری دنیا کے عوام آدمؑ کی ہی اولاد ہیں جو وقت اور زمانے کے ساتھ تقسیم ہوتے چلے گئے اس حقیقت سے بھی کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ انسان کا ہی بچہ ہوتا ہے لیکن وہ جس گھرانے جس مذہب جس کلچر میں پیدا ہوتا ہے عمر کے ساتھ ساتھ اسی کو اپناتا جاتا ہے، یہ ایک سامنے کی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

جب ہم ان حقائق کو تسلیم کرتے ہیں تو انسانوں سے نفرت کی کوئی وجہ نہیں رہتی۔ دنیا میں انسانوں سے محبت کرنے والے انسانوں کی کمی نہیں لیکن ایسے ناسمجھ لوگوں کی بھی کمی نہیں جو بڑی ایمانداری سے ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں یہ روایتی طرز فکر ہے جسے بدلنے کی ضرورت ہے ذرا اس حقیقت پر نظر ڈالیے کہ ہر شخص کو خواہ اس کا کسی مذہب سے تعلق ہے یہ ذمے داری ہے کہ وہ عقائد کے حوالے سے کسی کی کسی حوالے سے دل آزاری نہ کرے اس کے برخلاف ہر مذہب کا احترام کرے۔ ہر مذہب کے ماننے والوں سے محبت کرے تاکہ انسانوں کے درمیان پائی جانے والی دوریاں نزدیکیوں میں بدلتی جائیں۔

ہم نے بتایا تھا کہ تقسیم ہند کے بعد جو خون خرابہ ہوا جو نفرتیں پھیلائی گئیں متحدہ ہندوستان کے ادیبوں، شاعروں اور فنکاروں نے ان نفرتوں کو ختم کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اپنی کوششوں میں بڑی حد تک کامیاب رہے۔ انھی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے عوام مذہبی انتہا پسندی سے الگ ہو رہے ہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت میں بی جے پی نہ صرف مذہبی انتہا پسندی کا مظاہرہ کر رہی ہے بلکہ ہندوتوا کے نام پر انسانوں کے دلوں میں مذہبی نفرتیں پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور مودی حکومت اسی قسم کے لوگوں کی مختلف حوالوں سے حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔

ہندوستان اور پاکستان ایک ہزار سال تک متحد رہے، باوجود کوششوں کے عوام دشمن اس ہزار سالہ اتحاد کے خلاف اپنی منفی مہم میں کامیاب نہ ہوسکے۔ ہم نے تقسیم کے لگاؤ اور اہل قلم اہل فن کی ان کوششوں کا ذکر کیا تھا۔ آج ایسی کوششوں کی زیادہ ضرورت ہے اب دنیا تیزی سے بدل رہی ہے سائنس اور ٹیکنالوجی کی دریافت نے ہزاروں سال پر مشتمل فرسودہ کلچر کو بے اثر بنا دیا ہے اب انسانوں کے درمیان محبت اور بھائی چارہ عوام کی مادی ضرورت بن گیا ہے۔

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran