ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے بھوکے لوگوں کے لیے لنگر خانے کھولے ہیں جہاں بھوکے لوگ کھانا کھا سکیں گے۔ بلاشبہ یہ ایک ثواب کا کام ہے اس کا اجر وزیر اعظم کو ملے گا، لیکن وزیر اعظم نے جو لنگر خانے کھولے ہیں۔
ان میں دس بیس ہزار اپنی بھوک مٹا سکتے ہیں اور اتفاق سے ہمارے ملک کی آبادی بائیس کروڑ ہے جو لنگر خانوں سے مستفید نہیں ہو سکتی۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ عمران خان بائیس کروڑ لوگوں کو لنگر خانوں سے کھانا فراہم کریں بلکہ اس حوالے سے اس بات کو واضح کرنا ہے کہ عمران خان ستار ایدھی نہیں بلکہ اس ملک کے وزیر اعظم ہیں اس حیثیت میں بھوکوں کو لنگر سے کھانا کھلانا ان کو زیب نہیں دیتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر اعظم بے روزگاروں کو بڑے پیمانے پر روزگار دلوانے کی سبیل کریں، اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی اس بات کی تعریف کرنی چاہیے کہ موصوف نے اقتدار سنبھالنے کے بعد وعدہ کیا تھا کہ وہ کروڑوں عوام کے لیے روزگار کا بندوبست کریں گے۔
وزیر اعظم کی عوام سے یہ ہمدردی لائق تعریف ہے لیکن کروڑوں بے روزگاروں کو روزگار فراہم کرنا، بچوں کا کھیل نہیں، اس کے لیے ملکی معیشت کی وسعت کو دیکھنا ضروری ہے اور بائیس کروڑ انسانوں کے اس بڑے ملک میں کروڑوں لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کی بات ایک دیوانے کا خواب تو ہو سکتا ہے لیکن عملاً یہ کسی طرح ممکن نہیں جس کا اندازہ یقینا ان کو ہو گیا ہوگا۔
عمران خان ایک سادہ لوح انسان ہیں اور اپنی سادہ لوحی میں اس قسم کی باتیں کر جاتے ہیں جو تنقید کا باعث بن جاتی ہیں۔ البتہ اس حوالے سے اگر وہ صنعتی ترقی کی طرف منصوبہ بندی کے ساتھ دھیان دیں تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ صنعتی ترقی کا مطلب ہر شعبہ زندگی میں صنعتوں کا قیام ہے اور یہ کام ایک جامع منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں۔ وزارت عظمیٰ ایک بہت بڑی ذمے داری ہے بچوں کا کھیل نہیں۔ گھر چلانے اور ملک چلانے میں زمین آسمان کا فرق ہے وزیر اعظم کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے۔
اگرچہ وزیر اعظم کی ان خواہشات میں تھوڑی سی خوش فہمی ہے لیکن کرپٹ سیاستدانوں کے مقابلے میں یہ خواہش کتنی ہی بچکانہ کیوں نہ ہو بددیانت سیاستدانوں سے ہزاروں گنا بہتر ہے، لیکن وزیر اعظم کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ کرکٹ کی کپتانی اور ملک کی کپتانی میں بڑا فرق ہے۔ وزیر اعظم نے دو نئے شہر بسانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے یہ بڑی معقول تجویز ہے جو کئی مقاصدپورے کرسکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے بہت ہوم ورک اور بڑی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔
عشروں بعد ملک میں مڈل کلاس کی حکومت برسر اقتدار آئی ہے، ڈھائی برسوں سے اشرافیہ انگاروں پر لوٹ رہی ہے وہ حکومت کا تختہ الٹ کر دوبارہ برسراقتدار آنا چاہتی ہے اس کے لیے وہ حکومت کا تختہ الٹنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے۔ اب یہ عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ حکومت کے تحفظ کے لیے آگے آئیں کیونکہ اشرافیہ دولت کے انباروں کے ساتھ حکومت کو گرانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسے اگرچہ ناکامی کا سامنا ہے لیکن ماضی میں عوامی دولت کو جاگیر سمجھ کر لوٹنے والی اشرافیہ اس عوامی دولت کے ذریعے حکومت کا تختہ ہر قیمت پر الٹنے کے ایک نکاتی ایجنڈے پرکام کر رہی ہے۔
اس کھیل میں وہ بھاری دولت لٹا کر عوام کے ایک جھنڈ کو آگے بڑھا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ عوام نے حکومت کو مسترد کردیا ہے اس سازش کو کامیاب بنانے کے لیے وہ ہر ہتھکنڈا استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے اب یہ عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ اشرافیہ کی ہر سازش کو ناکام بنادیں۔ اس کے لیے ملک کے مدبرین کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ عوام کو اشرافیہ سے بچائیں اور حکومت کو ایسی بینکنگ فراہم کریں کہ اشرافیہ کی ساری کوششوں کو ناکام بنادیں۔
یہاں عوام کی توجہ اس اہم نکتے کی طرف دلانا ضروری ہے کہ حکومت کی جگہ آنے والی دوسری مڈل کلاس ہی کی حکومت ہو کیونکہ سازشوں کی بھرمار ہے اور اپوزیشن کی کوشش یہی ہے کہ کم ازکم آنے والے ممکنہ انتخابات کو جیتنے کے لیے پروپیگنڈے کا ایک طوفان اٹھا سکتی ہے کہ حکومت عوامی مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی۔ اس حوالے سے وہ اس ایجنڈے پر عمل پیرا ہے کہ آنے والے انتخابات میں ہر قیمت پر اشرافیہ کو کامیاب کرائے اس کے لیے وہ دولت کا بھرپور استعمال کرسکتی ہے۔
اشرافیہ کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ اگر دوبارہ مڈل کلاس کو اقتدار میں آنے کا موقعہ دے گی تو آنے والی حکومت بہت جلد عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی اور مڈل کلاس کی حکومتوں کا تسلسل جاری رہے گا۔ میڈیا کا کردار بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ میڈیا خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا نچلی سطح تک پہنچ رکھتا ہے اور عوام میں بیداری پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اشرافیہ بے بہا دولت کا استعمال کرکے ایک بار پھر عوام کو مس گائیڈ کرسکتی ہے اور اس کی بھرپورکوشش ہوگی کہ وہ کرپٹ ایلیمنٹ کے ذریعے مہنگائی سمیت کئی مسائل کوحکومت کے خلاف استعمال کرے۔