دنیا بھرکے جمہوری ملکوں میں سب سے پہلے بلدیاتی اداروں کے انتخابات کروا کر عوام کے مقامی مسائل کے حل کی راہ ہموار کی جاتی ہے تاکہ مقامی عوام کے مسائل ان کے علاقوں میں ہی حل ہو سکیں۔ عوام کو ایم پی اے، ایم این ایز کے پیچھے بھاگنے کی ضرورت نہ رہے، بلدیاتی قیادت ان کی پہنچ میں رہتی ہے، آدھی رات کو بھی اس کا دروازہ کھٹکھٹایا جا سکتا ہے۔
اسی سہولت کی خاطر جمہوری ملکوں میں بلدیاتی اداروں کو اہمیت دی جاتی ہے، اگر بلدیاتی ادارے فعال ہوں تو صوبائی حکومت کا آدھا بوجھ ختم ہو جاتا ہے اور عوام کے مسائل بھی حل ہوتے رہتے ہیں، چونکہ ان اداروں کا بجٹ الگ ہوتا ہے، اس لیے بلدیاتی اداروں کو مالی دشواریوں کا سامنا کرنا نہیں پڑتا۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں بلدیاتی نظام کا وجود حکومتوں کی صوابدید پر ہوتا ہے اگر مرکزی اور صوبائی حکومتیں راضی ہوں تو بلدیاتی انتخابات کرائے جاتے ہیں ورنہ بلدیاتی انتخابات کو برسوں تک کھٹائی میں ڈال دیا جاتا ہے جیسے کہ ہمارے ملک میں ڈالا جا رہا ہے۔ بلدیاتی اداروں کے انتخاب نہ کرانے کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ حکومتوں کو عوام کی تائید حاصل کرنے میں شک ہوتا ہے کہ عوام انھیں ووٹ دیتے ہیں یا نہیں اور یہ شک یا خوف اس لیے ہوتا ہے کہ حکومتیں عوام کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دیتیں۔
اس کے علاوہ ماضی میں یہ بھی ہوتا رہا ہے کہ بلدیات کا بجٹ ایم این ایز اور ایم پی ایزکو دیا جاتا رہا کہ وہ قابو میں رہیں اور حکومتوں کو ان کی طرف سے کوئی خطرہ نہ رہے، یہ ساری احتیاط اس لیے کی جاتی رہی کہ بلدیاتی نظام اشرافیہ کے قابو میں رہے کیونکہ بلدیاتی نظام کرپٹ مافیا کے لیے دودھ دینے والی بھینس کی مانند ہوتا ہے، یہ بددیانتیاں پسماندہ ملکوں میں ہی دیکھی جاسکتی ہیں۔ کیونکہ یہاں ابھی تک کرپشن کا کھلے عام راج ہے، ترقی یافتہ ملکوں میں بھی کرپشن موجود ہے کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے اور کرپشن کے بغیر سرمایہ دارانہ نظام چل ہی نہیں سکتا۔
ہمارا ملک چونکہ ابھی تک ایلیٹ مافیا کے قبضے میں ہے لہٰذا یہاں طرح طرح سے کمائی کے ذریعے نکالے جاتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک میں بلدیاتی نظام معطل ہے لہٰذا بلدیہ کا بجٹ صوبائی حکومت کی تحویل میں ہوتا ہے اور صوبائی حکومتیں اس کا بھرپور استعمال کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں زبان اور قومیت جیسی عصبیتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور بدقسمتی سے کراچی میں بلدیاتی نظام پر اردو بولنے والوں کا کنٹرول ہے اور سندھ کی حکومت اوریجنل سندھیوں کے قبضے میں ہے تو اس تضاد کی وجہ بھی سندھ میں بدنظمیوں اور قومیتوں کا مسئلہ نہ صرف موجود ہے بلکہ موثر بھی ہے۔
ہر ادارہ اس کا شکار ہے۔ چونکہ اردو بولنے والے سیاسی پشت پناہی سے محروم ہیں لہٰذا ان کے لیے مسائل کا ہونا ایک فطری بات ہے۔ اس سائیکی کی وجہ سے قابل لوگ گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں اور غیر مستحق لوگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، اگر یہ ناانصافی ہے تو اسے ختم ہونا چاہیے۔ رنگ، نسل، زبان، قومیت وغیرہ کے مسائل دنیا کے سارے ملکوں میں کسی نہ کسی حوالے سے موجود ہیں لیکن پاکستان میں یہ احساس زیادہ شدید ہے۔ جس کا مظاہرہ زندگی کے ہر شعبے میں کیا جاسکتا ہے، اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ان برائیوں کو سمجھنے والوں اور ان برائیوں کو دور کرنے کی اہلیت رکھنے والوں کو اندھیروں میں رکھا گیا ہے۔
اس حقیقت کو ماننا ضروری ہے کہ عام غریب سندھی شدید غربت میں مبتلا ہے اور انتہائی تکلیف دہ زندگی گزار رہا ہے۔ خاص طور پر سندھ کے دیہی علاقے غربت، بھوک اور بیماریوں کا گڑھ بن گئے ہیں، اس کی ایک وجہ وڈیرہ شاہی نظام ہے جس میں وڈیرے غریب طبقات کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کرتے ہیں، کیونکہ انتظامیہ ان وڈیروں کے قابو میں ہوتی ہے جس سے وڈیرے غریب لوگوں کو دبا کر رکھتے ہیں۔
ہم نے اپنے کالم کا آغاز بلدیاتی اداروں میں ہونے والی ناانصافیوں سے کیا تھا۔ کیا حکومت سندھ کے پاس اس کا جواب ہے کہ بلدیہ کے لیے غیر جانبدارانہ اور ایماندارانہ انتخابات کا اہتمام کیوں نہیں کیا جاتا اور بلدیاتی اداروں کو مالی اختیارات کیوں نہیں دیے جاتے؟ اس حوالے سے مختلف الزام لگائے جاتے ہیں جن میں کرپشن کا الزام بھی شامل ہے۔ سندھ میں بھی آج پی پی کی حکومت قائم ہے۔
اگر ایم کیو ایم پاکستان کو کرپشن کے خوف سے بلدیاتی ادارے نہیں دیے جا رہے ہیں تو پی پی پی کو پھر سندھ میں کیوں اقتدار دیا گیا ہے، اگر اس کا جواب یہ ہے کہ سندھ حکومت کو عوام نے منتخب کیا ہے تو یہ سوال ایم کیو ایم پاکستان پوچھنے میں حق بجانب ہے کہ اسے بھی عوام ہی نے منتخب کیا تھا۔ اس ایلیٹی سیاست سے اردو بولنے والے اور سندھی بولنے والے غریب دونوں سخت متاثر ہیں۔ ہم نے اپنے دور میں سندھیوں اور اردو بولنے والوں کو قریب لانے کی بہت کوشش کی، اس کام میں ڈاکٹر منظور اور ابراہیم جویو نے بہت مثبت کردار ادا کیا۔ کیا ایسے لوگ اب بھی موجود ہیں؟ بہرحال مردم شماری کروا کر فوری بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔