بعض وقت ایک لیڈر یا ایک پارٹی کی ناجائز ضد اور جارحیت سے کروڑوں انسانوں کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔ جنوبی ایشیا میں یہی ہو رہا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی ضد کی وجہ سے پورا جنوبی ایشیا پسماندگی کا شکار ہو رہا ہے۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر کی وجہ سے جو اختلافات موجود ہیں، ان کا نتیجہ یہ ہے کہ دونوں ملک ترقی پر خرچ ہونے والا اربوں روپیہ جنگی تیاریوں پرخرچ کر رہے ہیں، جس کا نتیجہ جنوبی ایشیا کی پسماندگی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کشمیر پر ناجائز اور جابرانہ قبضے سے بھارت کو کوئی فائدہ پہنچ رہا ہے؟
ہرگز نہیں بلکہ برصغیر کے ان دو بڑے ملکوں کی ترقی رک گئی ہے اور کروڑوں عوام اس سے براہ راست یا بالواسطہ نقصان اٹھا رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ ایک شخص محض اپنے عہدے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لاکھوں کروڑوں انسانوں کی زندگیوں کو تلخ کیے ہوئے ہے۔ کیا اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی ضد اور انا کی خاطر کروڑوں انسانوں کے مستقبل سے یوں کھیلتا رہے۔
بھارت آبادی کے حوالے سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس بڑے ملک کے رہنماؤں نے برصغیر کو پسماندگی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کی اس نئی دنیا میں انسانی تقسیم کے تمام حوالے ازکار رفتہ اور عملاً بے کار اور بے مصرف ہوتے جا رہے ہیں۔ انسانوں کی تقسیم کو عوام کے بہتر مستقبل کی تباہی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں۔ اس ساری قیامت کے پیچھے باہمی نفرت کام کر رہی ہے جو کسی حوالے سے بھی کوئی معنویت نہیں رکھتا۔
کشمیر کے بے عقلانہ اور بے جواز ایشو کے نام پرکشمیر کے دونوں حصوں کو مستقل پسماندگی کا شکار بنا کر رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ نامی ادارہ کشمیر کی ترقی کے سرہانے کھڑا فاتحہ پڑ رہا ہے۔ دنیا میں سیاستدانوں کے علاوہ سیاست دانوں سے زیادہ اہل انسان موجود ہیں۔ یہ صورت حال اس لیے قابل ملامت ہے کہ اس کے پیچھے دو کروڑ کے لگ بھگ انسانوں کا مستقبل چھپا ہوا ہے۔
صرف ایک آئٹم تجارت کو لے لیں۔ کشمیر کے مسئلے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان تجارت بند ہے، اگر صرف کشمیر کے حوالے سے بند تجارت کھولی جائے تو دونوں کشمیروں کے عوام کا معیار زندگی بلند ہو سکتا ہے، لیکن نفرتوں کے سوداگر ہرگز نہیں چاہتے کہ کشمیر کے عوام ترقی کریں اور ایک خوشحال زندگی گزاریں۔ سیاست نے عوام کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر دنیا کے معروف طریقہ کار کے مطابق کشمیر کے عوام کی اکثریت کے حوالے سے کشمیر کا مسئلہ حل کرلیا جاتا ہے تو دونوں کشمیروں کے عوام خوشحالی کی طرف پیش قدمی کرسکتے ہیں۔
ضمیر کے کچوکے انسان کو مجبور کردیتے ہیں کہ وہ سچ اور حق کے حق میں اپنی صلاحیتوں کو کام میں لاتا رہے۔ بھارت کی قیادت بدقسمتی سے متعصب ہے اور تعصب انسان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا رہتا ہے۔ دنیا میں سیکڑوں ملک ہیں جو اقوام متحدہ کے ممبر ہیں اور اقوام متحدہ ملکوں کے مسائل کے حل کے لیے بنائی گئی ہے، کیا اقوام متحدہ کے اراکین کو اس حقیقت کا ادراک ہے کہ ان کی غیر ذمے داری کی وجہ سے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کشمیریوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا ہے۔
کیا دنیا کو انصاف فراہم کرنے والے ادارے کے ممبر کی حیثیت سے اقوام متحدہ کا یہ فرض نہیں کہ وہ عشروں سے ناانصافی کی سولی پر چڑھے مسئلہ کشمیر کے حل میں اپنا ادارتی اور انسانی فرض ادا کرے۔ اصل میں بڑی طاقتوں کا حال بے لگام گھوڑوں جیسا ہے۔ جس طرف چاہیں منہ اٹھائے چلے جاتے ہیں۔ کسی اخلاقی ضابطہ کی ضرورت نہیں۔ جب تک اقوام متحدہ اصول ضابطوں کا خیال نہیں رکھے گی مسائل الجھے رہیں گے۔
برصغیر ہی کی نہیں بلکہ پورے جنوبی ایشیا کی بدقسمتی ہے کہ کشمیر کو لاوارث بنا کر رکھا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی قانونی اور اخلاقی ذمے داری ہے کہ نصف صدی سے زیادہ عرصے سے پینڈنگ میں پڑے مسئلہ کشمیر کو اپنے تازہ ایجنڈے کا حصہ بنا کر اس کے حل کی راہ نکالے۔
اقوام متحدہ کچھ اصولوں کچھ ضابطوں پر کھڑی ہے، اگر ان اصولوں اور ضابطوں کو پھیلا دیا جائے تو پھر اقوام متحدہ ایک ڈمی ادارے کے علاوہ کچھ نہیں رہتی۔ کشمیر محض ایک ریت اور سیمنٹ کا مجموعہ نہیں، ایک کروڑ کے لگ بھگ زندہ انسانوں کا ملک ہے۔ کیا یہی ہماری مہذب دنیا کی ریت ہے کہ انتہائی حساس مسائل کو صدیوں تک لٹکائے رکھا جائے۔
بلاشبہ رقبے اور آبادی کے حوالے سے بھارت ایک بڑا ملک ہے لیکن اخلاقی ضابطوں کے حوالے سے بھارت ایک مردہ ملک ہے کیونکہ انصاف اور قانون کے بغیر ایک ملک ملک نہیں کہلا سکتا، اگر ایک چھوٹا سا ملک یا گھر اگر اخلاقی ضابطوں کے بغیر چلایا جائے تو وہ ملک ملک نہیں شمشان گھاٹ ہی کہلایا جاسکتا ہے۔
دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ دنیا کا آبادی کے حوالے سے دوسرا ملک اخلاقی حوالے سے ایسے پست ترین مقام پر کھڑا ہے کہ اسے کسی اخلاقی ضابطوں کا سرے سے کوئی احساس ہی نہیں، ہر روز کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے لیکن دنیا اندھی بہری بنی ہوئی ہے۔