Tuesday, 26 November 2024
  1. Home/
  2. Zahir Akhter Bedi/
  3. Insaniyat Kahan Hai?

Insaniyat Kahan Hai?

ہندوستان میں کئی ماہ سے کسان احتجاج کر رہے ہیں، اس تحریک میں مرد، خواتین، بچے، بوڑھے اور جوان بھی شامل ہیں۔ سخت سردی میں رات دن سڑکوں پربیٹھے ہوئے ہیں۔ میں ان کے مطالبات نہیں گنواؤں گا کیونکہ مذہب کے فرق کے علاوہ سارے انسانوں کے مطالبات ایک جیسے ہی ہیں۔

بھارت میں نریندر مودی برسر اقتدار ہے۔ مودی ایک انتہا پسند ہندو ہے مسلمانوں سے وہ سخت نفرت کرتا ہے جس کا اظہار اس نے گجرات میں مسلمانوں کے قتل عام سے کیا۔ آج وہ بھارت و پاکستان ہی میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں مسلمانوں کے قاتل کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے، ہزاروں مسلمان مرد، خواتین، بچے، جوان، بوڑھے اس کی مذہبی سفاکی کی نذر ہوگئے۔

المیہ یہ ہے کہ ایسے جنونی قاتل کو بھارتی عوام نے ملک کا سربراہ یعنی وزیر اعظم منتخب کیا ہے وہ آج فطری طور پر مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتا ہے کیونکہ اس کی سیاسی قربت کٹر مذہب پرستوں سے ہے اور اس تربیت نے اسے انسان سے شیطان بنا دیا ہے۔ کٹر مذہبی حلقے خواہ ان کا تعلق کسی مذہب سے ہو سیدھے سادھے انسانوں سے محبت کرنے والوں کو شیطان بنا دیتے ہیں۔ یہ کس قدر احمقانہ بات ہے کہ دنیا کا ہر انسان خواہ اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو جب پیدا ہوتا ہے تو صرف اور صرف انسان کا بچہ ہوتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ خاندان اور ملک کے رسم و رواج اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اگر خاندان اور ملک کٹرپنتھی ہو تو نومولود بھی کٹر پنتھی بن جاتا ہے، اگر خاندان اور ملک لبرل ہو تو نومولود بھی اپنی گروتھ کے ساتھ لبرل ذہنیت کا مالک بن جاتا ہے۔

یہ صورت حال صرف بھارت میں نہیں بلکہ کئی ملکوں میں ہے جہاں انسان انسانیت کے درجے سے گر کر اشرافیہ کی سازشوں کا شکار ہو جاتا ہے، اس کے لیے صرف مذہب کی تفریق ضروری نہیں کوئی بھی اختلافی مسئلہ انسان کو شیطان بنا دیتا ہے، لیکن قارئین کرام! یاد رکھیں کہ مسئلہ کوئی بھی ہو اور خواہ کتنا اہم اور جذباتی کیوں نہ ہو اس کے پیچھے اشرافیہ یعنی دولت پر قابض طبقے کے مفادات ہوتے ہیں جو عوام خواہ ان کا تعلق کسی مذہب و ملت سے ہو اشرافیہ کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں۔ یہ تکنیک سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی تکنیک ہے کہ عوام کو لڑائو، نام اور ناواں کماؤ۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اس سازش کے خلاف لوگ آگے نہیں آتے، انفرادی حیثیت سے تو کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں لیکن اجتماعی حیثیت سے وہ کچھ کر نہیں پاتے کیونکہ عوام کے دشمن خواہ ان عوام کا تعلق کسی مذہب کسی دین دھرم سے کیوں نہ ہو، وہ عقائد جو انسان کو انسان کا دشمن بنا دیتے ہیں قابل احترام نہیں بلکہ قابل نفرت ہوتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی ایک انسانی جرم ہے۔

مسلمان ایک ہزار سال تک بھارت کے حکمران رہے، ایک ہزار سال کا عرصہ بہت لمبا ہوتاہے اس طویل عرصے میں انسانوں یعنی ہندوستان کے درمیان وہ مذہبی نفرتیں نہیں تھیں جو ہمارے مہذب معاشروں میں موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو قیادت کی فراخ دلی تھی دوسری وجہ عوام کا مزاج تھا جسے محبت اور بھائی چارے پر استوار کیا گیا تھا یہ اس دور کی بات ہے جب انسان اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ انسان کیا انسانوں کے درمیان نفرتیں ہی پیدا کرتا ہے؟

ہم نے بھارت میں سکھوں کے احتجاج کے حوالے سے کالم کا آغاز کیا تھا۔ سکھ اور ہندو مسلمانوں اور سکھوں کے مقابلے میں ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہیں، بھارتی فوج میں سکھ بہت بڑی تعداد میں ہیں اور گورکھے بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ یہ مذہب اور قوم کے حوالے سے بھارتی فوج میں بالادست نہیں بلکہ اپنی جنگی صلاحیتوں کے حوالے سے بھارتی فوج میں بالادست ہیں۔ بھارت میں ہندو طبقے کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ہندو بھارتی فوج میں مقابلتاً کم تعداد میں ہے اور یہ تفریق مذہب کے حوالے سے نہیں بلکہ جنگجو یا جہالت کے حوالے سے ہے ویسے بھی ہندو مذہب کے ماننے والے لڑنے بھڑنے کے بجائے کاروبار کو ترجیح دیتے ہیں۔

ہم مذاہب کی خوبصورتی اور بدصورتی پر بات کرتے کرتے سکھوں اور گورکھوں کی طرف نکل آئے۔ بھارت ایک کثیرالقوم ملک ہے جس میں ہندو اکثریت میں ہیں لیکن یہ تجارت پیشہ زیادہ ہیں جنگ و جدل سے دور ہوتے ہیں۔ آج کل کے کلچر کے مطابق کالم نگاروں کا حال نچلے درجے میں کام کرنے والوں کا سا ہے، جو بے روزگار ہے وہ زندہ رہنے کے لیے کسی نہ کسی پیشے کو اپناتا ہے چونکہ ہمارے ملک میں پڑھے لکھوں کا تناسب بڑھ رہا ہے لہٰذا وہ پڑھے لکھے پیشوں کی طرف آ رہے ہیں جن میں صحافت بھی ہے ہر شعبے میں تعلیم یافتہ لوگوں کو زیادہ مراعات ملتی ہیں، جب کہ صحافت میں ایسا کچھ نہیں۔

ہم نے جب صحافت میں ڈبل ایم اے کیا تو مارکیٹ میں جرنلزم کی کتابیں مشکل سے ملتی تھیں، ہم کراچی یونیورسٹی کی لائبریری میں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔ بہرحال پڑھ لکھ گئے، ہماری معاشی بدحالی کی وجہ یہ ہے کہ ہم الگ تھلگ رہنے والے تنہائی پسند انسان ہیں خیر یہ باتیں ہمارے کالم کے اصل موضوع سے ہٹ کر ہیں۔ لہٰذا اصل موضوع کی طرف آتے ہیں یعنی "انسانیت" سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت کہاں ہے دلی میں سکھوں کے پاس، کشمیر اور فلسطین کے پاس؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran