کیا پاکستان چند خاندانوں کی رہن شدہ جائیداد ہے یا 22 کروڑ عوام اس کے مالک ہیں؟ یہ سوال ذہن میں اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ ایک خاندان ہر قیمت پر پاکستان پر قبضہ چاہتا ہے، اس نیک کام کے لیے ایسا خوف پھیلایا گیا ہے کہ کچھ ہونے جا رہا ہے ہمارے عوام حیرت اور خوف سے راجاؤں اور مہاراجاؤں کو دیکھ رہے ہیں۔
ان کے حربے دیکھ رہے ہیں ان کی چالاکیاں دیکھ رہے ہیں لیکن خاموش ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو تین نسلوں کے اقتدار کا انتظام تو کر لیا گیا ہے اب کیا قیامت تک کے اقتدار کی تیاری ہو رہی ہے؟ یہ سب جمہوریت کے نام پر ہو رہا ہے۔ کیا اس ملک میں کبھی جمہوریت رہی ہے؟ اس سوال کا جواب قطعی نفی میں ہے سوائے ابتدائی دور کے ہمیشہ اس ملک پر جاگیردار، سرمایہ دار، صنعتکار مسلط رہے ہیں۔
دکھ یہ ہے کہ ہمارے عوام میں دوست اور دشمن کو سمجھنے کی اہلیت نہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اشرافیہ سازشوں کے ذریعے مستقل اقتدار پر قابض ہے اب جب اقتدار میں تبدیلی آئی ہے تو اس تبدیلی کو روکنے کے لیے اشرافیہ اور اس کے حامیوں کوحکومت کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس بار ایک نئی سازش بڑی کامیابی سے چلائی جا رہی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے خواہش مند امیدواروں کی سیاسی خدمات کیا ہیں۔ اس ملک کی تقدیر بدلنے میں اس ملک کے عوام کو ایلیٹ کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے امیدواران حکومت نے کیا خدمات انجام دی ہیں؟ تین بار اقتدار میں رہنے کے باوجود اس ملک کے عوام اب بھی وہی معاشی غلامی کے منصب پر فائز ہیں۔ میں حیران ہوں کہ ہمارے ملک کے جید قلم کار کس کونے میں دبک گئے ہیں۔ ایوب خان اور یحییٰ خان کی حکومتوں کے خلاف سڑکوں پر آنے والے اور جیلوں اور کوڑوں کا مقابلہ کرنے والے عوام آج کہاں ہیں؟ ایسا لگتا ہے کہ ہر طرف خاموشی ہے کہ کسی طرف سے ان سازشوں کے خلاف کوئی آواز سنائی نہیں دیتی۔
مجھے کالم لکھتے ہوئے 50 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو رہا ہے اس طویل عرصے میں کتنی حکومتیں آئیں اور بڑے دبدبے سے حکومت کی۔ ایوب خان نے تو عوام کو دہشت زدہ کرنے کے لیے بدمعاشوں کی ایک تعدادکھڑی کی تھی کہ غریب عوام کو سر نہ اٹھانے دیا جائے لیکن اس ملک کے بہادر عوام اور دلیر میڈیا نے ایوب کے کوڑے کھائے جیلیں کاٹیں لیکن سچ اور حق لکھتے رہے اس حوالے سے آج کے منظر نامے پر نظر ڈالی جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے قلموں کو زنگ لگ گیا ہے، ایوب جیسے بڑے بڑے طرم خان آئے اور چلے گئے۔ عوام کی طاقت کے آگے کوئی شاہ ٹھہر سکتا ہے نہ کوئی شہنشاہ ٹھہر سکتا ہے۔
میں سخت بیمار ہوں کہ ہاتھ سے قلم پکڑا نہیں جا رہا ہے لیکن سیاسی بلیک میلنگ جس شدت سے کی جا رہی ہے اس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ اس ملک میں ایک بار پھر ایوبی آمریت کا دور دورہ ہوگا۔ جناح صاحب کے گزر جانے کے بعد محترمہ فاطمہ جناح میدان سیاست میں اتریں لیکن وہ صرف عوام کی طاقت کو بڑھانے کے لیے کام کرتی رہیں ایوب خان نے عوام کو دبانے کی کوشش کی اور اپنی کوششوں میں کامیاب بھی رہا لیکن اسے جس ذلت کا سامنا کرنا پڑا اس پر تاریخ شرمندہ ہے۔ فاطمہ جناح ہار کر بھی جیت گئیں۔ آج پاکستان میں فاطمہ جناح کا نام تو عزت سے لیا جاتا ہے اور ایوب خان کا کوئی نام لیوا نہیں۔
آج ایک بار پھر ہم سیاسی غنڈہ گردی کی زد میں ہیں لیکن عوام بغور اس صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ عمران خان کا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے 72 سال سے ملک پر قابض اشرافیہ کے پنجوں سے عوام کو نکالا اور قیام پاکستان کے بعد سے جو اشرافیہ سازشوں کے ذریعے اقتدار پر قابض تھی اس سے عوام کو نجات دلائی۔ عمران خان ایک ایماندار سیاست دان ہے اور اس کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ اس کے مخالفین آج تک کوششوں کے باوجود اس پر ایک پائی کی کرپشن ثابت نہ کرسکے۔ بدقسمتی سے وہ آج کورونا جیسی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہے خدا اس کی مدد کرے اور اسے اس قابل بنائے کہ وہ اشرافیہ کو دوبارہ اقتدار میں آنے نہ دے۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ عوام ابھی تک اپنے طبقاتی دشمنوں کو پہچان نہ سکے۔ یہ کس قدر حیرانی کی بات ہے کہ سالوں تک لوٹ مار کا بازار گرم کرنے والے گروہ اسی لوٹ مار کے ذریعے دوبارہ عوام کو اپنا ہمنوا بنانے میں مصروف ہیں اور ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ہماری اجتماعی بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اس وقت لاتعلق بنے بیٹھ جاتے ہیں جب ملک کو ان کی ضرورت ہوتی ہے۔ آج ہم ایک فیصلہ کن دور سے گزر رہے ہیں اس ملک کی اشرافیہ اپنے دلالوں اور کرائے کے کارکنوں کے ذریعے بڑے بڑے ہجوم جمع کرکے دباؤ ڈال رہی ہے کہ عدلیہ کو آزادی سے کام کرنے نہ دے اور کسی طرح ان مجرموں کو چھڑا لے جو دس دس سال کی سزا بھگت رہے ہیں۔
یہ ہے وہ جمہوریت جو عوام کے سروں پر دوبارہ مسلط کرنے کی سر توڑ کوشش کی جا رہی ہے۔ اپنے آشناؤں کی مدد سے ملک میں یہ تاثر دینے کے لیے کہ عمران حکومت اس مہنگائی کی ذمے دار ہے تاجروں کو استعمال کر رہی ہے سوال یہ ہے کہ انتخاب لڑنے والی جماعتیں عوام سے کچھ وعدے کرتی ہیں کہ وہ اقتدار میں آکر انھیں پورا کریں گی۔
ہمارا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں کے دوران اربوں روپوں کی کرپشن کی گئی۔ جس سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے آج عوام کو استعمال کرنے والے یہ وعدہ کیوں نہیں کرتے کہ وہ اربوں روپوں کی دس سالہ کرپشن کی غیر جانبدارانہ تحقیق کرائیں گے اور مجرموں کو قرار واقعی سزائیں دلوائیں گے۔ یہ ایک عوامی مطالبہ ہے جس کو آنے والی حکومتیں پورا کریں گی۔