ہمارے ملک کو اسلامی مملکت پاکستان کہا جاتا ہے، اسلامی اخلاقیات میں بڑوں کے ادب و احترام کو بنیادی حیثیت حاصل ہے لیکن معاشرے کے نچلے طبقات میں اخلاقی قدروں کی کوئی حیثیت نہیں۔
پرانی نسل اب بھی اخلاقی ضابطوں کا احترام کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے نئی نسل محض دولت کی بہتات کی وجہ سے ظل سبحانی بن بیٹھی ہے اور زبان کا استعمال بے جا کرتی ہے۔ ہمارے ملک میں آج کل سیاستدانوں میں محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے، سینئر سیاستدانوں پر کرپشن کے الزامات ہیں اور وہ ملک سے باہر ہیں یا جیلوں میں قید ہیں۔
اگر ہمارے ملک میں جمہوریت ہوتی تو ملک سے بھاگے ہوئے سیاستدانوں کے بجائے ملک میں موجود سیاستدانوں کو منتخب کیا جاتا تاکہ سیاست میں خلا باقی نہ رہے۔ اگر غیر حاضر سیاستدانوں کی جگہ تعلیم یافتہ بااخلاق لوگوں کو آگے لایا جائے تو غیر سیاستدانوں کا خلا پورا کیا جاسکتا ہے، لیکن ہمارے جمہوری ملک میں کسی وجہ سے سیاست سے الگ ہو جانے والے سیاستدانوں کی جگہ اپنی آل اولاد کو آگے لایا جاتا ہے۔
ہمارے ملک پر جو اشرافیہ اپنے بڑوں کا متبادل بن کر آئی ہے ہو سکتا ہے وہ پڑھی لکھی ہو لیکن وہ اپنے سے بڑے مخالف سیاستدانوں کے لیے جو غلط زبان استعمال کر رہی ہے اسے دیکھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ یہ عوام کی قسمت سنوارنے والے سیاستدان نہیں ہیں بلکہ عوام کے اخلاق بگاڑنے والے وہ لوگ ہیں جو محض دولت کی بہتات کی وجہ سے اس قدر مغرور ہوگئے ہیں کہ اپنے سے زیادہ عمر والوں کے خلاف ایسی زبان استعمال کرتے ہیں کہ سننے والوں کے سرشرم سے جھک جاتے ہیں۔
ہمارا دور میڈیا کا دور ہے اور ٹی وی پر جو بات کی جاتی ہے وہ منٹوں میں اپنے ملک کے کونے کونے ہی میں نہیں پہنچتی بلکہ ساری دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ ہمارے رہنماؤں کی زبان دیکھ کر ہمارے ملک کی اخلاقیات بھی پیچھے رہ جاتی ہے۔ ہماری سیاست کی گاڑی دولت کے پہیوں پر چل رہی ہے، ادب اور اخلاق نام کی کسی چیزکا سرے سے کوئی وجود نہیں۔ دولت کی جھنکار پر رقص کرنے والی سیاست میں زیادہ عمر رکھنے والے سیاستدانوں کا نام ایسی بدتمیزی سے لیا جاتا ہے کہ سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے۔
عمران خان ہمارے ملک کے وزیر اعظم ہیں ان پر الزام ہے کہ حالیہ الیکشن انھوں نے دھاندلی سے جیتے ہیں چونکہ دھاندلی ہمارا قومی اوڑھنا بچھونا بن گئی ہے سو کوئی عجب نہیں کہ دھاندلی ہوئی ہو مگر دھاندلی ہوئی ہے تو یہ ایک غلط روایت ہے اور اس کے خلاف عدالتوں کے دروازوں کو کھٹکھٹانا چاہیے اگر اس جائز اور عمومی طریقہ کارکو چھوڑکر غلط اور غیر اخلاقی طریقے اختیار کیے جائیں تو معاشرہ انارکی کا شکار ہو جاتا ہے اور ملک کا مستقبل بھی مشکوک ہو جاتا ہے وہ لوگ جو دولت کی بہتات کے نتیجے میں پیدا ہونے والی زبان کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے وہ پورے معاشرے کے بہتر مستقبل کے دشمن ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک آدھ خرابی نہیں کہ جسے ٹھیک کیا جاسکے ہمارا معاشرہ سر سے لے کر پاؤں تک غلاظتوں کا ایک ایسا ڈھیر بن گیا ہے جس کو تبدیل کرنا ایک بہت مشکل کام ہے۔ مسلم ملکوں میں عام آدمی کو برائیوں اور اخلاقی دیوالیہ پن سے بچانے کے لیے عام طور پر علمائے کرام وغیرہ مثبت کردار ادا کرتے ہیں لیکن ہماری بعض مذہبی قیادت نے ایلیٹ کی محافظ بن کر رضاکاروں کی فوج تیارکر لی ہے۔
اشرافیہ کے مفادات کے لیے اسے استعمال کر رہی ہے یہ صورتحال ملک اور معاشرے کے لیے سخت تباہ کن ہے جسے سختی سے روکا جانا چاہیے۔ خاص طور پر مخلص مذہبی قیادت کو آگے بڑھ کر ان خطرناک برائیوں کے آگے بند باندھنا چاہیے۔
پاکستان سمیت ساری دنیا آج کورونا کے خطرناک خطرے کی زد میں ہے ہر روز ہزاروں لوگ اس عذاب کی نذر ہو رہے ہیں ایسے پریشان کن حالات میں قومی زندگی کو لاحق خطرات سے نمٹنے کے بجائے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنا اور بڑی عمر کے افراد کی بے عزتی کرنا شرفا کا کام نہیں ہوتا۔ سیاسی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن وزیر اعظم ملک کی عزت کا سمبل ہے اگر ٹی وی پروگراموں میں وزیر اعظم کی تحقیرکی جائے تو دنیا ہمارے اس فعل پر ہنسے گی۔
ہم بحیثیت قوم سخت مشکلات کا شکار ہیں، عوام کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ ملک کو کرائسس سے نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں لیکن یہ اس وقت ہی ہوگا جب سیاسی قیادت محض حصول اقتدار کی لڑائی سے نکل کر قوم و ملک کی اجتماعی بھلائی کے ایجنڈے پرکام کرے۔