Monday, 25 November 2024
  1. Home/
  2. Zahir Akhter Bedi/
  3. Nakam Koshish

Nakam Koshish

موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اپوزیشن نے جس شدت سے حکومت کے خلاف تحریک شروع کی تھی، اس سے یوں لگتا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت چند دن کی مہمان ہے۔

جمہوری ملکوں میں حکومتوں کو ہٹانے کا ایک معین طریقہ ہے اور اسی طریقے کے مطابق حکومتوں کو ہٹایا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں اکثر اوقات آئینی طریقے کار کو استعمال کرنے کے بجائے گھیراؤ جلاؤ کی سیاست کرکے برسراقتدار حکومت کو ناکام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آج کی حکمران پی ٹی آئی نے مسلم لیگ ن کی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا تھا جب کہ اب پی ڈی ایم اسی راستے پر چلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ فی الحال صورت حال یہ ہے کہ پی ڈی ایم اور اپوزیشن کی دوسری پارٹیاں خاموش ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تین سال کے دوران پی ٹی آئی حکومت نے اپنے قدم اچھی طرح جما لیے ہیں کہ اب اس کو ہٹانا یا گرانا آسان نہیں رہا۔

کہا جاتا ہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کو نادیدہ قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا ہی ہو، اشرافیہ نے ملک کے عوام کی دولت کی جو لوٹ مارکی ہے، اس کی میڈیا میں تفصیل آتی رہی ہے اس کے پیش نظر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جاسکتی تھی کہ ٹیکنوکریٹس، سیاستدانوں اور ریاست کے ملازموں نے اس ملک کے عوام کو جی بھر کر لوٹا ہے اور یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔ بات احتجاجی سیاست کی ہورہی تھی۔ پی ڈی ایم کے جلسے جلوسوں میں عوامی شرکت کم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ پی ڈی ایم عرف مسلم لیگ (ن) مایوسی کا شکار ہے، اگرچہ مریم نواز بھرپور کوشش کر رہی ہیں کہ کسی طرح پی ڈی ایم میں جان پڑ جائے لیکن فی الحال ایسا نہیں ہورہا ہے۔

کہا جاتا ہے برے کام کا برا انجام ہوتا ہے، حکمران اشرافیہ نے ستر برس سے لوٹ مارکا جو بازار گرم کیے رکھا ہے، اس کی شاید تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لوٹ مار کے سرمائے کو مزدوروں، پھل فروشوں کے اکاؤنٹوں میں ڈال کر بیرون ملک منتقل کردیا گیا۔ یہ وہ کارنامے تھے جس کا جواب آج میڈیا میں شایع ہونے والے سکینڈل دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا لوٹی ہوئی اربوں کی رقم برآمد کرلی گئی؟ اس کا جواب کون دے گا؟ یہ پورا ایک سیٹ اپ ہے جو عوام سے رقم لوٹتا ہے اور محفوظ ٹھکانوں میں پہنچا دیتا ہے۔ یہ سسٹم عشروں سے چل رہا ہے اور اشرافیہ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اربوں روپوں کی مالک بن گئی ہے۔ اب بھی لوٹ مار کا یہ سلسلہ کسی نہ کسی طریقے سے جاری ہے۔

پاکستان میں 22 کروڑ عوام رہتے ہیں جو دو وقت کی روٹی کے لیے محتاج ہیں۔ دوسری طرف سخت حالات میں بھی اربوں روپوں کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے، سوال یہ بھی ہے کہ ہماری ایجنسیاں کیا کر رہی ہیں؟ کہا جاتا ہے کہ نیب کو مکمل آزادی حاصل ہے، ہو سکتا ہے کہ یہ بات درست ہو لیکن یہ آزادی نیب کو کس لیے دی گئی؟ کیا چوہتر سال میں کسی حکومت نے ایسا ادارہ بنایا تھا جو اشرافیہ کا محاسبہ کرسکے؟ اب جب کہ ایک ادارہ پہلی بار اشرافیہ کا محاسبہ کر رہا ہے تو اشرافیہ نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے اور اس ادارے کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے، دنیا کے دیگر ملکوں میں بھی کرپشن کی وباء موجود ہے لیکن جو بات پاکستان میں ہے وہ کسی ملک میں نہیں۔

غریب عوام رات دن محنت کرکے جو سرمایہ جمع کرتے ہیں اسے بے رحم اشرافیہ لوٹ لیتی ہے اگر نیب نے اشرافیہ سے اربوں روپے برآمد کیے ہیں تو اس نے کوئی جرم نہیں کیا، بلکہ قوم کی خدمت کی ہے۔ کیا اس کا صلہ اس کے خلاف تحریک کی شکل میں ملنا چاہیے؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب پاکستان کے 22 کروڑ عوام مانگتے ہیں۔

یہ ملک نہ جاگیرداروں کا ہے نہ صنعت کاروں کا ہے، اگر نیب صحیح طریقے سے بغیر کسی حمایت اور مداخلت کے لوٹی ہوئی رقم نکال رہا ہے تو وہ ایک اچھا کام کر رہا ہے جس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ پاکستان ایک غریب ملک ہے جہاں کے عوام دو وقت کی روٹی کے لیے بارہ بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں کیا ایسے ملک میں عوام کی کمائی ہوئی دولت کا حشر یہ ہونا چاہیے؟ کرپشن سرمایہ دارانہ نظام کا ایک لازمی حصہ ہے لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں اگر اشرافیہ اربوں روپے کی لوٹ مار نہیں کرتی تو آج ہمارے عوام روٹی کو نہ ترستے، بھارت بھی ایک پسماندہ ملک ہے جہاں ایک ارب کے لگ بھگ عوام رہتے ہیں وہاں بھی کرپشن ہے لیکن جو حال پاکستان کا ہے اس کا جواب نہیں۔

بھارت میں اشرافیہ بے دست و پا ہے مرکزی اور صوبائی حکومتوں میں غریب عوام اور مڈل کلاس کی حکومتیں قائم ہیں اور یہ ایک منطقی بات ہے کہ غریب عوام اربوں روپوں کی لوٹ مار نہیں کرسکتے۔ بلاشبہ دنیا کے تمام ملکوں میں خواہ وہ غریب ہوں یا امیر کرپشن موجود ہے کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہے اسے اسی صورت میں مکمل طور پر ختم کیا جاسکتا ہے جب سرمایہ دارانہ نظام ختم کیا جائے۔ کیا دنیا میں ایسے لوگ ایسی جماعتیں موجود ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کرسکیں؟

Check Also

Pakistan Par Mumkina Dehshat Gardi Ke Saye

By Qasim Imran