جسدِ قومی کو لاحق مرض بھی معلوم ہے، تشخیص بھی بارہا ہوچکی ہے، علاج بھی ناممکن نہیں ہے، مگر مرض کم ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے۔ وجہ اخلاص اور نیک نیّتی کا فقدان ہے۔ لگتا ہے فیصلہ سازوں کو ذاتی اور گروہی مفاد ملک سے عزیز تر ہے۔
راقم ملک سے باہر بارہا پاکستانی باشندوں اور یورپ کی مختلف یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم پاکستانی طلباء سے خطاب کے دوران ہمیشہ بڑے فخر کے ساتھ پاکستان کا ذکر کرتا رہا ہے۔ منتخب پارلیمنٹ اور آزاد عدلیہ کا ذکر کیا جاتا تھا۔ حکمرانوں کا بے رحمی سے احتساب کرنے والے میڈیا کا کردار اجاگر کیا جاتا اور آخر میں نوجوان پاکستانیوں کو نصیحت کی جاتی تھی کہ آپ یہاں کی بہترین یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے ملک میں واپس آئیں تاکہ آپ کی صلاحیّتیں وطنِ عزیز کے کام آئیں۔
بہت سے اووسیز پاکستانی دوست جب پوچھتے ہیں کہ "کیا آپ آج بھی پاکستانی طلباء کے سامنے وہی باتیں کریں گے جو چند سال پہلے کیا کرتے تھے؟" تو میں خاموش ہوجاتا ہوں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستانی یُوتھ غیر مطمئن اور پریشان ہے، پارلیمنٹ پر سوالیہ نشان ہے۔ اعلیٰ قومی اداروں پر عوامی اعتماد کا فقدان ہے، بلوچستان لہولہان ہے اور زرخیز ذہنوں کے حامل افراد کی امریکا اور یورپ کی جانب اڑان ہے۔ ان حالات میں بیرون ممالک میں رہنے والے پاکستانیوں سے کوئی کیا بات کرے۔ بڑے دکھی دل کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب ہمارا کیس کمزور ہے، اس لیے بات کرنا مشکل ہے۔
بلوچستان میں بے گناہ پنجابیوں کو کیوں قتل کیا جاتا ہے؟ کیا بلوچستان میں مزدوری کے لیے جانے والے پنجابی محنت کشوں نے بلوچستان کے حقوق غضب کیے ہیں؟ یا پنجاب کے حکمرانوں نے بلوچستان کے ساتھ ظلم اور زیادتی روا رکھی ہے؟ ان سوالوں کے جوابات سے سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے۔ اس سے کون انکار کرسکتا ہے کہ بلوچستان میں پہلا ملٹری آپریشن جنرل ایوب خان نے کیا تھا، جو پنجابی نہیں تھا۔ دوسری بار ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی منتخب حکومت برطرف کی اور پھر نواب بگٹی کو ساتھ ملا کر مری قبیلے کے خلاف ملٹری اپریشن کیا، وہ بھی پنجابی نہیں تھا۔ تیسرا ملٹری آپریشن جنرل مشرّف نے رائلٹی کے مسئلے پر نواب اکبر بگٹی کے خلاف کیا جس میں نواب صاحب جاں بحق ہوگئے۔
وہ صریحاً ظلم اور ایک قومی سانحہ تھا مگر جنرل مشرّف بھی پنجابی نہیں تھا۔ راقم نے سروس کا آغاز بھی بلوچستان سے کیا ہے، اس کے بعد بھی بلوچستان جانے اور وہاں کے اہلِ دانش سے ملنے اور تبادلۂ خیال کرنے کا بارہا موقع ملا ہے، اس بات پر سب متفق ہیں کہ بلوچستان میں سب سے زیادہ ترقی اس وقت ہوئی جب جنرل رحیم الدّین وہاں کے گورنر تھے۔ وہ ایک سخت گیر منتظم تھے، انھوں نے کرپشن نہیں ہونے دی اور یقینی بنایا کہ ترقیاتی فنڈز گراؤنڈ تک پہنچیں اور عام آدمی مستفیض ہو۔ باخبر حضرات یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ بلوچستان کو سب سے زیادہ فنڈز مسلم لیگ کے پنجابی وزیراعظم کے دور میں فراہم کیے گئے۔
نوازشریف نے بلوچستان کے ضمن میں مزید فراخدلی کا مظاہرہ اس طرح کیا کہ اپنی پارٹی کو نظرانداز کرکے اختر مینگل کو وزیراعلیٰ بنوادیا، یہ الگ بات ہے کہ وہ نوازشریف کی سپورٹ کے باوجود اکثریت برقرار نہ رکھ سکے اور وزارتِ اعلیٰ سے محروم ہوگئے۔ دوسری بار 2013میں پنجابی وزیراعظم نے پھر قربانی دی اور اپنی پارٹی کے بجائے ایک نیشلسٹ لیڈر ڈاکٹر مالک کو وزیراعلیٰ بنوادیا۔ جنھوں نے دو ڈھائی سال اچھا کام کیا۔ سوال یہ ہے کہ بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں طلباوطالبات کے ساتھ مکالمے کا اہتمام کیوں نہیں ہوتا اور انھیں یہ اعداد وشمار کیوں نہیں بتائے جاتے۔
اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ قیامِ پاکستان سے پہلے پورے بلوچستان میں ایک ہائی اسکول، 16 سیکنڈری اسکول اور 97 پرائمری اسکول تھے اور خواندگی کی شرح صرف 5.5% تھی۔ آج بلوچستان میں پندرہ ہزار سے زیادہ اسکول، 145 کالج، 13 کیڈٹ کالج (1980 تک پورے پنجاب میں ایک ہی کیڈٹ کالج یعنی کیڈٹ کالج حسن ابدال، اور سندھ میں کیڈٹ کالج پٹارو ہوتا تھا) دو لڑکیوں کے کیڈٹ کالج، پانچ میڈیکل کالج اور بارہ یونیورسٹیاں ہیں۔ آج الحمداللہ بلوچستان میں شرحِ خواندگی 54.5 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ آج بلوچستان کے 45000 طلباء آرمی کے بہترین تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ صرف پاکستان آرمی بلوچستان کے تقریباً آٹھ ہزار طلباء کو وظائف دیتی ہے۔
وظائف کی رقم سولہ کروڑ روپے سالانہ بنتی ہے۔ اِس وقت بلوچستان میں 965 طلباء کے لیے ایک تعلیمی ادارہ موجود ہے جب کہ پنجاب میں 2630 طلباء کے لیے ایک تعلیمی ادارہ ہے۔ 1947 میں پورے بلوچستان میں صرف کوئٹہ میں ایک سرکاری اسپتال تھا، اب ماشاء اللہ 134 اسپتال اور 574 ڈسپنسریاں ہیں۔ مبالغہ آمیزی کی حد تک پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ بلوچستان کی گیس سے پورا پاکستان فیضیاب ہورہا ہے مگر خود وہاں کے باشندے اس سے محروم ہیں۔ اصل حقائق کے مطابق اس وقت بلوچستان پورے ملک کی گیس کی کل ضرورت کا 9 فیصد فراہم کررہا ہے، جس میں سے 6 فیصد خود بلوچستان میں استعمال ہوتی ہے اور 3 فیصد باقی ملک کو فراہم کی جاتی ہے جب کہ 91% گیس دوسرے صوبے پیدا کررہے ہیں یا پاکستان باہر سے منگوارہا ہے۔
بلوچستان کی جانب سے ملکی ضروریات کے لیے تیل کی سپلائی صفر ہے، دوسری طرف بلوچستان میں گندم کی سالانہ کھپت 16 لاکھ ٹن ہے جس میں سے آدھی پنجاب اور سندھ سے پوری ہوتی ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں ایک سال میں 10 لاکھ ٹن چاول استعمال ہوتا ہے جب کہ بلوچستان صرف پانچ لاکھ ٹن چاول پیدا کرتا ہے، باقی پانچ لاکھ ٹن پنجاب اور سندھ سے فراہم کیا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ملک میں گندم کی کل پیداوار میں سے 62% پنجاب پیدا کرتا ہے اور چاول کی کل پیداوار میں سے 55% پنجاب میں پیدا ہوتا ہے۔
گوادر پورٹ بلوچستان کی تقدیر بدلنے والا منصوبہ ہے اور بلوچستان کے نوجوانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ گوادر کا تحفہ بھی سرگودھا کے ایک پنجابی (فیروز خان نون) نے انھیں دیا تھا جس نے بڑی جدّوجہد کے بعد یہ اہم ترین جگہ سلطانِ مسقط سے حاصل کی تھی۔ بلوچ دانشور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بلوچستان کو فنڈز بڑی فیاّضی سے ملتے رہے ہیں مگر اس پیسے سے سرداروں، ممبرانِ اسمبلی اور سرکاری افسروں نے اپنی جیبیں بھری ہیں۔ ایک بار میں نے بلوچستان کے ایک دیانتدار چیف سیکریٹری احمد بخش لہڑی (جو خود بھی بلوچ تھے) سے پوچھا کہ مرکزی اور صوبائی حکومت سے جاری ہونے والے فنڈز کا 25% پیسہ تو گراؤنڈ پر لگتا ہی ہوگا؟ کہنے لگے"اگر دس فیصد بھی لگ جاتا تو آج بلوچستان کے حالات مختلف ہوتے"۔
بلوچستان میں دہشت گردوں کے ہاتھوں پنجابیوں کے قتل کے محرکات لوکل کے بجائے عالمی ہیں، یہ دشمن ممالک کی اسکیم ہے جس کے تحت وہ پاکستان کی مختلف Communities کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ بلوچستان میں بدامنی پھیلانے کی دوسری وجہ گوادر کی بے مثال بندرگاہ اور چین کا بڑھتا ہوا اثرو رسوخ ہے۔ گوادر، بھارت، امریکا اور اسرائیل کے علاوہ ہمارے مسلم بھائیوں کو بھی کانٹے نہیں خنجر کی طرح چُبھتا ہے، لہٰذا وہ تمام ممالک یہاں غارتگری اور بدامنی پھیلانے کے لیے بے تحاشا پیسہ لگارے ہیں۔ مگر تشویشناک بات یہ ہے کہ امن و امان قائم رکھنے والی سیکیوریٹی فورسز اور انٹیلی جنس ادارے غیر موثّر ثابت ہورہے ہیں۔
ان اداروں کوایک دن میں دس جگہوں پر کی جانے والی کاروائیوں کی بروقت خبر کیوں نہ ہوسکی اور انھوں نے دہشت گردوں کو موثر جواب کیوں نہ دیا؟ ملک کے وزیرِداخلہ کا بیان کہ یہ ایک SHOکی مار ہیں، انتہائی سطحی بات ہے، اگر ایسا ہے تو وہ ایس ایچ او کہاں چھپا کر رکھا ہواہے؟ ہر شخص یہ سوال اُٹھاتا ہے کہ امن وامان کے اس قدر دگرگوں حالات میں تو وزیرِداخلہ کو سر کھرچنے کی فرصت نہیں ہونی چاہیے۔ مگر کیا موجودہ وزیرِداخلہ اتنا فارغ ہے کہ وہ کرکٹ بورڈ جیسا ادارہ بھی چلارہا ہے۔
بلوچ عوام کے کچھ شکوے بے جا ہیں مگر مسنگ افراد کے علاوہ ان کا یہ شکوہ بجاہے کہ اُن سے حقِ حکمرانی چھین لیا گیا ہے، اس کا آغاز اس وقت ہوا جب مسلم لیگ ن کی صوبائی حکومت ختم کی گئی تھی۔ صوبے کا ہر باشعور شخص کہتا ہے کہ اِس بار ہر سیٹ کا فیصلہ پولنگ اسٹیشنوں کے باہر ہوا ہے اور الیکشن کو مالی منفعت کا ذریعہ بنایا گیا ہے۔ عوام کی رائے اور بیلٹ بکس کے تقدّس کو پامال کرکے کبھی امن قائم نہیں کیا جاسکتا۔ بلوچ عوام کا حقِ حکمرانی انھیں واپس کیا جائے، وہ اپنی مرضی سے اپنے حکمران منتخب کریں اور انھیں عزّت اور آزادی سے کام کرنے دیا جائے۔
بلوچ لیڈر بے گناہ پنجابیوں کے قتل کی مذمّت کریں اور اعلان کریں کہ آیندہ ان کی حفاظت کے ذمّے دار وہاں کے سردار اور سیاسی لیڈر ہوں گے۔ ایماندار اور جراتمند افسر بلوچستان میں تعینات کیے جائیں۔ ڈی آئی جی کیپٹن اظفر مہیسر جب بدامنی کے گڑھ مکران کا ڈی آئی جی تھا تو حالات مکمل کنٹرول میں تھے۔ اس جیسے سمجھدار اور تجربہ کار افسروں سے مشاورت کی جائے۔ گوادر کے مقبول ترین لیڈر، جماعتِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے درویش صفت راہنما ہدایت الرحمن کو گرفتار کرنا اور ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں پیش کرنا سخت زیادتی ہے، یہ فیصلہ جس کا بھی تھا وہ کم فہم ہے یا اسے ملک کے مفاد سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہاں ایسے افسر تعینات ہونے چاہئیں جو رزقِ حلال کھاتے ہوں اور حالات کا شعور اور ملک کا درد رکھتے ہوں۔ اس وقت ملک کو گرداب سے نکالنے کا واحد حل تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت کا قیام ہے۔